شیخ الادب مولانا تاج محمد آریجوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:مولانا تاج محمد۔لقب: شیخ الادب۔والد کااسم گرامی:میر خان کھوکھر۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1323ھ مطابق 1905ء کو گوٹھ’’خیر محمد آریجہ‘‘تحصیل ڈوکری ضلع لاڑکانہ سندھ پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم خلیفہ اللہ رکھیہ میر بحر اور خلیفہ خدا بخش میر بحر سے حاصل کی۔ تحصیل قمبر (ضلع لاڑکانہ) کے گوٹھ ٹھوڑھو میں مولانا کریم داد چانڈیو کے پاس فارسی کا اغاز کیا۔ اس کے بعد سندھ کی عظیم دینی درسگاہ ’’دارالفیض‘‘ گوٹھ سونہ جتوئی (ضلع لاڑکانہ) میں باقاعدہ داخلہ لے کر تعلیم کا آغاز کیا۔ وہیں درس نظامی کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔علم منطق کبریٰ، فلسفہ، حکمت اور علم ادب کے حصول کیلئے لاہور کی نامور دینی و قدیم درسگاہ دارالعلوم نعمانیہ میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں دیگر وزیر آباد (گجرات) اور ضلع گجرات (پنجاب) کے گوٹھ کٹھالہ شیحان، ضلع شاہ پو رکے گوٹھ بکھربار میں نامور حکیم مولانا عبدالرسول کے پاس میزان طب، طب اکبر، قانونچہ، موجز نفیسی اور شرح اسباب جیسی طبی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد گھر واپس لوٹے۔
بیعت وخلافت: علامہ تاج محمد نے دوران حج مسجد الحرام کے صحن میں حضرت مولانا رحمت اللہ صدیقی قریشی خانقاہ اتمانزئی شریف تحصیل چار سدہ ضلع پشاور) کی زیارت سے باریاب ہوئے۔ مولانا پیر صاحب سے بہت متاثر ہو کر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں دستِ بیعت ہوئے۔ پیر صاحب نے مولانا کو خلافت اور اوراد و وظائف کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔
سیرت وخصائص: شیخ الادب،ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ،حضرت علامہ مولانا تاج محمد آریجوی۔آپنےدینِ متین کی خدمت ،مسلک حق اہل سنت کی اشاعت میں تمام زندگی صرف فرمائی۔آپایک متحرک شخصیت تھے۔جہاں جس کام کی ضرورت محسوس کرتے،فوراً وہ انجام دیتے۔بالخصوص بعد از فراغت اپنےگوٹھ خیر محمد آریجہ میں 14/ شوال المعظم 1347ھ کو’’مدرسہ شمس العلوم‘‘کی بنیادرکھی،ایک استاد کو مدرس مقرر کرکے خود حصول علم کےلئے پنجاب کا رخ کیا، وہیں سے بعد فراغت مدرسہ میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔
حرمین شریفین کا سفر: مولانا تاج محمد نےحج بیت اللہ اور روضہ رسول مقبول ﷺ کی حاضری کی نیت سے حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا۔حج و زیارت کے بعد مدینہ منورہ میں علامہ عبدالرؤف مدنی ازہری،علامہ عبدالعزیز جرمونی اور علامہ عمر حمدان (صدر مدرس مدرسہ صولتیہ مکہ) سے صحاح ستہ کا درس لیا۔ اور علامہ عبدالباقی لکھنوی مہاجر مدنی سے علمی سندیں حاصل کیں۔ شیخ القراء قاری حسن شاعر مدنی سے علم تجوید حاصل کیا اور مکہ مکرمہ میں بھی قاری اسحاق (مدیر مدرسہ عثمانیہ) قاری امین کتبی (مدیر مدرسہ الفلاح) اور قاری احمد حجازی سے بھی تجوید کی تعلیم حاصل کی۔وہاں رہ کر خوب علمی استفاددہ کیا،اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے تمام کومتاثر کیا۔
جامعہ ازہر کا علمی دورہ: مولانا تاج محمد نے علمی دورہ کیلئے مصر کا سفر اختیار کیا اور قاہرہ کی بین الاقوامی درسگاہ ’’جامعۃ الازہر‘‘ میں چھ ماہ کا علمی دورہ کیا۔وہاں بھی اپنی اعلیٰ ذہانت کے نقش چھوڑے ہیں، جامعہ کے منتظمین آپ سے بہت متاثر ہوئے اور معلم کی حیثیت سے خدمات حاصل کرنا چاہیں لیکن آپ نے معذرت کرلی اور وطن واپس آگئے۔
سیاسی بصیرت ومطالبہ نفاذِ نظامِ مصطفیٰﷺ: علامہ تاج محمد نے عملی سیاست میں حصہ تو نہیں لیا لیکن وقت بوقت پاکستان کے حکمرانوں تک اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کا پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ مولانا نے ’’جماعت نور الاسلام‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی تھی جس کے وہ صدر تھے۔ جس کے تحت 5/ اکتوبر 1947ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ایک خط تحریر کیا جس مین بانی پاکستان نظام مصطفیٰﷺ کے نفاذ کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ 14/ اکتوبر 1947ء کو قائد اعظم کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹری کی جانب سے مولانا کو جواب موصول ہوا جس میں اطمینان دلایا گیا، اسی طرح گونرجنرل ناظم الدین کے نام بھی مولانا نے تفصیلی خط تحریر کیا جس میں ملک میں نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا ۔ اس تفصیلی خط میں ارکان اسلام کے قیام کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی پابندی،چوری کی سزا، قصاص کو جاری کرنا ، بے حیائی و عریانیت کا سدباب اور شراب ، جوا ، رشوت کے مکمل خاتمہ کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
اس خط کے آخر میں مولانا تاج محمدرقم طراز ہیں: ’’جب تک مذکورہ باتوں پر عمل نہ ہوگا تب تک پاکستان اسم بامسمٰی نہ ہوگا یعنی اس کے قیام کا اصل مقصد حاصل نہ ہوسکے گا۔‘‘ یہ خط خوشخطی اور ڈیزائن کا بھی اعلیٰ نمونہ ہے ، مولانا نے اپنے قلم سے خوشخط بنایا (کتابت کی) اور 6/ صفر المظفر 1368ھ/1948ء کو چھپوا کر عام کیا۔اس طرح قیام پاکستان کے بعد مولانا تاج محمد پہلے سنی عالم ہیں جنہوں نے پاکستان میں نظام مصطفیٰﷺ کے نفاذ کا سب سے پہلے مطالبہ کیاتھا۔(قیام ِ پاکستان کوسترسال ہوگئے،شروع سےلےکر اب تک علماء اہل سنت اپنے اس دیرینہ مطالبےسے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے،اور قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ امام شاہ احمد نورانی صدیقیکی اس سلسلےمیں بڑی خدمات ہیں،آپ نےنوجوانوں کونیا جذبہ ٔ ایمانی دیا۔پاکستان اسلام کےنام پر وجود میں آیا اور اس کی بقاء کی ضمانت نظامِ مصطفیٰﷺکانفاذ ہے)۔
تصنیف و تالیف: مولانا تاج محمد آریجوی کو تصنیف و تالیف سے بھی دلچسپی تھی اسلئے درج ذیل کتابیں تحریر کیں، لیکن اکثر کتابیں ابھی تک قلمی صورت میں ان کے ورثا کے پاس ہیں:1۔تحفہ حسینی اس وقت کے کلیکٹر (آج کے ڈی سی ) سید الطاف ترمذی کے استفسار پر سندھ کے اہم موضوع کاروکاری پر تحریر کیا۔ 2۔کواکب دریۃ در نظم فارسی رسالہ جزریہ (قلمی) تجوید و قرأت پر ۔3۔سیف الرسول ۔4۔نور البصر (سندھی قلمی) استمداد کے موضوع پر وہابیت کا رد بلیغ۔5۔فیض پیر سائیں روضے دھنی قدس سرہ الاقدس ۔6۔حاشیہ تفسیر جلالین(سندھی، قلمی)7۔شربت حسین (اردو، قلمی) اکابر وہابیہ مولوی احتشام الحق تھانوی اور مفتی شفیع دیوبندی (کراچی ) کے فتویٰ کا مدلل ردتحریر کیا،اوریہی کتاب بعد میں’’شہید صداقت‘‘کے نام سے شائع کی گئی۔8۔راہنما عربی (قلمی)۔9۔رہبر فارسی۔10تحریر القوال فی تردید الطلاق المھوال (موضوع طلاق قلمی)11۔سبب ایجاب اربع رکعات بعد فرض الجمعۃ مرۃ بعد مرۃ ۔12تاج الفتاویٰ دو جلدیں۔
تاریخِ وصال: علامہ تاج آریجوی13/ذوالقعدہ 1382ھ مطابق 1963ءکوواصل باللہ ہوئے۔آخری آرام گاہ گوٹھ خیر محمد آریجہ (ضلع لاڑکانہ) کی جامع مسجد کے زیر سایہ کامل ولی اللہ حضرت مخدوم شہاب الدین منگریو علیہ الرحمۃ کے گنبد میں واقع ہے۔
ماخذومراجع: انوارعلمائے اہل سنت سندھ۔