مفتی غلام حسین نقشبندی کانپوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مفتی غلام حسین نقشبندی عیسیٰ خیلوی ثم کانپوری۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: مفتی غلام حسین بن شیخ محمد بن شیخ ابراہیم۔(علیہم الرحمہ)آپ تحصیل "عیسیٰ خیل"ضلع میانوالی پنجاب پاکستان میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم: ناظرہ قرآن مجید فن صرف و نحو اور ابتدائی علوم کو اپنے شہر میں مولانا شیخ و لایت سے پڑھ کر طلب ِعلم کے لئے "سہارنپور" کا پیدل سفر کیا۔ پھر وہاں سے کانپور تک ریل گاڑی میں سوار ہوئے، اور مولانا احمد حسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہ سے درسی کتابیں پڑھ کر1308ھ میں فراغت کی سند حاصل کی۔ اور ایک مدت تک ان کی خدمت کرتے رہے، پھر کانپور میں سکونت اختیار کر کے طویل مدت تک لوگوں کو مسجد سید محمد علی بن عبدالعلی کانپوری میں پڑھاتے اور فائدے پہنچاتے رہے۔
بیعت وخلافت: آپ شیخ سراج الدین نقشبندی "موسیٰ زئی شریف "ضلع ڈیرہ اسمعیل خان)سے بیعت ہوئے،اور انہی کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کیں،پھر انہوں نے آپ کوسلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں خلافت عطاء فرمائی۔
سیرت وخصائص: قاریِ قرآن،مفتیِ زمان،صوفیِ باصفا،امام المعقولاتِ والمنقولات،ااستاذالعلماء شیخ الصوفیاء حضرت علامہ مولانا مفتی غلام حسین نقشبندی کانپوری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ جید عالمِ دین تھے،اس کے ساتھ ساتھ سبعہ عشرہ کے زبردست قاری بھی تھے۔ساتوں قرأت سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔عالمِ باعمل متقی وپرہیزگار تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے پیرومرشد امام الاولیاء حضرت خواجہ سراج الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی اقتدامیں نماز اداکرتے تھے۔تقریباًسات سال تک یہ شرف حاصل رہا۔بالآخر حضرت نے آپ کو خلافت واجازت عطاء فرماکر "کانپور"جانے کاحکم فرمایا۔آپ نے کانپور جاکر دینِ متین کی تبلیغ شروع فرمادی ۔کثیر مخلوقِ خدانے آپ سے علمی وروحانی استفادہ فرمایا۔ہروقت مخلوقِ خد اکاہجوم لگا رہتا تھا۔نماز کی امامت خود کرتے تھے۔آواز میں عجب سوز تھا کہ غیرمسلم اور طوائف قرآن کی تلاوت سن کر تائب ہوجاتے تھے۔فاسق وفاجر متقی وپرہیزگا بن جاتے تھے۔کانپور میں آپ نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کو بڑافروغ عطاء فرمایا۔آپ جامع العلوم تھے۔ فن نحو اور فقہ میں بڑی صلاحیت کے مالک تھے۔ آپ پورا وقت لوگوں کو پڑھانے اور مریدین کی تربیت میں لگاتے اس لئے آپ کو تالیف و تصنیف کی طرف فرصت ہی نہ ملی۔
شیوخ سے استفادہ: پھر جب سیدمحمد علی صاحب جن کا ابھی تذکرہ ہوا وہ حرمین شریفین جانے لگے تو یہ بھی ان کے ساتھ حج و زیارت سے مشرف ہوئے۔ شیخ حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے سبقا سبقا مثنوی شریف پڑھی۔ پھر "موسٰی زئی"جا کر شیخ سراج الدین بن عثمان نقشبندی سے فن طریقت حاصل کیا، اور ایک مدت تک آپ ہی کی صحبت میں پڑے رہے، یہاں تک کہ اس فن کے آپ مجاز ہوگئے۔ پھر آپ "کانپور" لوٹ آئے، اور وہاں آپ نے مسندسنبھالی جس سے اس شہر میں آپ کو بہت زیادہ مقبولیت ہوئی۔پھر آپ شیخ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی برابر زیارت اور ان کے پاس رہ کر استفادہ فرماتے۔ اور فن حدیث میں آپ سے ہی سندلی۔
وصال: 4/صفر المظفر۔1341ھ میں آپکا انتقال ہوا۔
ماخذومراجع: نزہۃ الخواطر۔ج:8۔فیوضاتِ سراجیہ:333