گل احمد خان عتیقی ، شیخ الحدیث مفتی محمد
اسمِ گرامی: گل
احمد خان ۔
چھوٹے
چچاراجہ محمد ایوب خان نے پہلے آپ کا نام بدرالزمان خان رکھا؛ بعدمیں، معلوم ہوا
کہ اس علاقے میں اِس نام کا ایک اور شخص بھی ہے اس لیے بدل کر گل احمد خان رکھا
گیا۔
عتیقی:
1965ء
میں دورانِ تعلیم حضرت سیّدنا ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
عقیدت کی بنا پر آپ نے خود ہی
اپنے نام کے آگے ’’عتیقی‘‘ کی نسبت بھی
شامل کرلی۔
سنِ
پیدائش: 1949ء۔
مقامِ پیدائش: سربن،تحصیل ہٹیاں، کشمیرآباد۔
والدِ ماجد: علی حیدر خان۔
جدِّ امجد (دادا): زبردست خان۔
تعلیم و تربیت:
آپ کے
دادا زبردست خاں متبعِ شریعت وتہجد کے
پابند بزرگ تھے۔ گاہے ساری رات نوافل میں گزاردیتے۔ مولانا عتیقی اکثر ان کے پاس
بیٹھے رہتے، وہ آپ کو کھانا بھی اپنے ساتھ کھلاتے اور کھانے پینے کے آداب بتاتے۔
پھر ان کے بعد دادی، والد اور تایا ابراہیم خان بھی خصوصی تربیت فرماتے رہے۔
آپ کے
گھر اکثر علما و مشائخ کی آمد ورفت رہتی ۔ علمی بحث مباحثے ہوتے رہتےحتّٰی
کہ پوری رات مختلف مسائل پر بحث چلتی ۔ مولانا عتیقی دورانِ تعلیم جب کبھی گھر
جاتے تو آپ کی والدۂ مرحومہ اور تایار اجہ محمد ابراہیم خان مرحوم امتحاناً
ان سے مسائل پو چھتے رہتے ۔ ایک دفعہ آپ کی والدۂ مرحومہ نے ’’پند نامہ‘‘ کے
مصرعہ ’’قول اور الحن نے آوازے نے‘‘ کا مطلب پوچھا تو آپ کَمَّا
حَقُّہٗ اس
کی وضاحت نہ کر سکے اور پھر تایا صاحب نے بھی اتفاقاً اسی مصرعے کا
مطلب پو چھا جو آپ کو نہ آیا تو علیحدہ لے جاکر فرمایا:
’’بیٹے! یک من علم
را دہ من عقل باید‘‘
ناظرہ
قرآنِ مجید اپنی مسجد کے امام ملامحمد شریف اور اپنے گھر کے افراد سے پڑھا۔
پرائمری تک اسکول کی تیاری اپنے چچا راجہ محمد ایوب خان سے کی اور پرائمری
کا امتحان اسکول بانڈی سیداں میں دیا پھر اسی سکول کے لوئر مڈل ہونے کی وجہ سے
ساتویں جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی جب چھٹی جماعت کا امتحان پاس کیا تو
والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔
علامہ
عتیقی بانڈی سکول کے ماسٹرصدرالدین اور ماسٹر علی حید رصاحب سے بہت متاثر ہیں ۔
۱۹۵۸ء
میں والدۂ ماجدہ مرحومہ مغفورہ اور والدِ محترم کی وصیت کے مطابق اسکول کی تعلیم
چھوڑ کر جامعہ تعلیم الاسلام پہنچے چوں کہ داخلے کا وقت نہیں تھا اس لیے رختِ سفر
باندھ کر لاہور آگئے اور جامعہ گنج بخش میں داخلہ لے کر قاری محمد طیّب صاحب
سے قرآنِ پاک کا تلفظ ٹھیک کیا، ان سے سورۂ یٰسین، سورۂ مُلک اور تیسویں پارے کا
نصفِ آخر بھی یاد کیا۔
بعدازاں
صوفی محمدبشیر صاحب کے مشورے کے مطابق گوجرانولہ جا کر حضرت مولانا ابو داؤد محمد
صادق صاحب کے مدرسے سراج العلوم میں داخلہ لے کر سکندر نامے تک فارسی حضرت مولانا
مفتی محمد عبداللہ سے پڑھی اور صرف کی ابتدائی کتب مولانا عبداللطیف سے پڑھیں۔ پھر
جامعہ غوثیہ، بھابڑا بازارمیں داخلہ لے کر حضرت مولانا غلام محی الدین صاحب سے
رسائل منطق وغیرہ اور مولانا سیّد حسین الدین شاہ صاحب سے مراح الارواح وغیرہ کتب
پڑھیں اور اسی سال جامعہ رحمانیہ، ہری پور ہزارہ میں شیخ الحدیث علامہ مولانا پیر
سیّد زبیر شاہ صاحب سے علم الصیغہ، ہدایۃ النحو، نورالانوار اور مولانا
عبدالعزیز صاحب سے کچھ قانونچہ اور اوسط وغیرہ کتب پڑھیں۔
پیدل سفر اور قرض:
مولانا
عتیقی نے طالبِ علمی کے زمانے میں تحصیلِ علم
کے لیے کئی پیدل سفر بھی کیے، مگر دو بڑے سفر یہ ہیں:
· گجرات
بسال سکھا سے گوجرانوالہ تک
· گوجرانوالہ
سے واں بچھراں تک۔
نیز،
طالبِ علمی کے زمانے میں ہاتھ پھیلانے کی بجائے قرض لے کر پڑھتے رہے، جو آپ نے تدریس کے دوران اُتارا۔
اَساتذکرام:
علامہ
عتیقی نے جن شخصیات سے کسبِ فیض کیا، اُن کے اَسماء یہ ہیں:
1. راجہ
زبر دست خان( آپ کے دادا)
2. راجہ
محمد ابراہیم خان( آپ کے چاچا)
3. راجہ
محمد ایوب خان( آپ کے چاچا)
4. علامہ
عطا محمد چشتی بندیالوی گولڑوی
5. شیخ
القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی
6. علامہ
غلام رسول رضوی
7. علامہ
سیّد محمد زبیر شاہ
8. علامہ
سیّد غلام محی الدین
9. علامہ
سیّد حسین الدین شاہ مد ظلہ العالی
10.
مفتی محمد
عبدالقیوم ہزاروی
11. ماسٹر
صدر دین
12. ماسٹر
علی حیدر
13.
مولوی محمد شریف
14.
علامہ مفتی محمد
عبداللہ مردانوی
15.
علامہ اللہ بخش وا
بچھراں (رحمۃ
اللہ تعالٰی علیھم)
تدریس :
اپنوں
اور بےگانوں کی شدید مخالفت کے باوجود جامعہ رضویہ مظہر الاسلام، فیصل آباد سے
بحیثیتِ صدر مدرس تدریس کا آغاز کیا۔ ڈیڑھ سال تک وہاں تدریس فرماتے رہےپھر ۱۹۶۹ء
سے ساڑھے چار سال تک جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور میں تدریس فرمائی۔ اس کے بعد ڈیڑھ
سال جامعہ نعمانیہ، لاہور میں اور پھر دوبارہ ایک سال ۱۹۷۵ء کو جامعہ نظامیہ
لاہور میں مدرس رہے۔
بعدازاں
تقریبا دس سال تک دوبارہ جامعہ رضویہ مظہر الاسلام، فیصل آباد میں تدریسی جوہر
دکھائے۔ علامہ عتیقی وہاں صدر مدرس اور نائب مفتی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے
رہے۔ اس دوران آپ نے جامع ترمذی پڑھانے میں حد درجہ محنت کی۔ چوں کہ نوجوان تھے
اور دیگر شیوخ کو کتبِ احادیث پڑھاتے ہوئے ایک عمر گزر چکی تھی ؛تاہم آپ نے محنت
سے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔
تلامذہ:
شیخ
الحدیث حضرت علامہ مفتی گل احمد خان عتیقی سے اب تک سیکڑوں علما نے اکتسابِ علم
کیا۔
چند
تلامذہ کے نام یہ ہیں:
· شیخ
الحدیث حافظ عبدالستار سعیدی
· شیخ
الحدیث مولاناصدّیق ہزاروی
· مولانا
سیّد غلام مصطفیٰ بخاری عقیل
· مولانا
محمد صادق علوی
· مولانا
شیرمحمد رضوی
· مولانا
غلام یٰسین رضوی
· مولانا
محمد سعید قمر
· مولانا
خواجہ وحید احمد
· مولانا
پیر سیّد فیض محی الدین شاہ
· مولانا
کما ل الدین
· مولانا
محمد احسان اللہ
· مولانا
محمد اظہا راللہ
· مولانا
حبیب الرحمٰن
· مولانا
قاضی وحید احمد
· مولانا
محمد آصف ہزاروی
· مولانا
الطاف حسین نیروی
· مولانا
سیّد شاہد حسین شاہ
· مولانا
نعمت اللہ خان ضیائی
· مولانا
عبدالوحید
· مولانا
محمد صدّیق زاہد عرفانی
فتویٰ نویسی:
جامعہ
رضویہ فیصل آباد میں دس سالہ تدریس کے دوران مفتی گل احمد خان عتیقی نے نہایت محنت
کے ساتھ نو (۹) سال فتویٰ نویسی کی خدمات سر انجام دیں۔ سردیوں میں بھی رات دو بجے
تک جاگتے رہتے۔ نو سال میں آپ نے ہزاروں فتاوٰی لکھے اگر انہیں محفوظ کرلیا جاتا
تو یہ ایک عظیم فتاوٰی کتابی صورت میں موجود ہوتا۔
بیعت:
شیخ
الحدیث حضرت علامہ مفتی گل احمد عتیقی ۱۹۵۹ء میں دارالعلوم سراج العلوم
(گوجرانوالہ ) میں تعلیم کے دوران شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا ابو الفضل
محمد سردار احمد قادری چشتی محدثِ اعظم پاکستان کے دستِ اقدس پر بیعت
ہوئے۔
دینی وملی و سیاسی تحاریک میں حصّہ :
مفتی
گل احمد عتیقی صاحب کے کشمیری خاندان کا شمار حکمران خاندانوں میں ہوتا ہے جو عرصۂ
دراز تک سیاسی افق پر چھایا رہا، اس لیے سیاست آپ کو وراثتاً ملی ہے۔ آزاد کشمیر
کے معروف سیاست دان راجہ علی حیدر خان مرحوم بن راجہ فاروق حیدر خاں سابق صدر مسلم
کانفرنس آپ کی برادری سے ہیں۔ آپ دو مرتبہ جمعیت علمائے جموں وکشمیر کے سینئر نائب
صدر، ایک مرتبہ نائب صدر دوم اور ایک مرتبہ ۱۹۷۰ء میں لاہور ڈویژن کے صدر رہ چکے
ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں جمعیت علمائے پاکستان وسطی لاہور کے صدر اور کنویئر رہ چکے ہیں۔
علامہ عتیقی مرکزی مجلس شوریٰ جمعیت علمائے پاکستان کے رکن بھی رہے ہیں۔ رابطۃ
المعلمین مدارسِ عربیہ پاکستان کے رکن اور اخوان المؤمنین پاکستان کے معاون اور
سنّی علما کونسل( فاروق آباد) کے سرپرست بھی رہ چکےہیں۔ نیز آپ انجمن طلبۂ مدارسِ
عربیہ اور سنّی جمعیت علمائے جموں و کشمیر کے سر پرست رہ چکے ہیں۔
مولانا
عتیقی نے طالبِ علمی کے زمانے سے ہی تحریکات میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ چنانچہ
شورش کا شمیری نے کانگریسی علما کے کہنے پر علمائے اہلِ سنّت
کے خلاف جو تحریک شروع کی تھی، آپ نے اپنے ساتھیوں مولانا سیف الرحمٰن چترالی اور
مولانا غلام مرتضیٰ ہزاروی کے ساتھ مل کر اس تحریک کو کچلنے کے لیے بھر پور کردار
ادا کیا۔ یہ تینوں ساتھی مل کر رات کو اپنے اشتہار لگاتے اور علمائے اہلِ سنّت
کے جلسے کرواتے، اس طرح چند دنوں میں کانگریسی علما کی تحریک دم توڑگئی اور وہ
دفاع پر مجبور ہوگئے۔
1970ء
میں بھٹو شاہی کے خلاف تحریک کا حصّہ بھی بنے۔
1974ء
کی تحریکِ ختمِ نبوّت لاہور میں سب سے پہلے جلوس کی قیادت حضرت مولانا گل احمد
عتیقی نے مولانا محمد رشید نقشبندی، مولانا علی احمد سندیلوی وغیرہم کے ساتھ
کی۔ اس کے علاوہ آپ نے علامہ سیّد محمود احمد رضوی اور نوابزادہ نصر اللہ خان کے
ساتھ مل کر لاہور میں کئی جلسوں سے خطاب کیا اور راولپنڈی کے مدرسۂ تعلیم میں بہت
بڑے اجتماع میں شرکت کی۔ اسی طرح ایک مرتبہ جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور سے رات کے
وقت دینی طلبہ کا جلوس نکال کر اس وقت کے لاہور کے ڈی سی او اور وزیر اعلیٰ پنجاب
محمد حنیف رائے کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
علامہ
عتیقی نے ۱۹۷۷ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰﷺ میں بھرپور حصّہ لیا۔ موصوف اُس وقت جامعہ
رضویہ فیصل آباد میں صدر مدرّس اور مفتی تھے اور لاہور سمن آباد میں جمعہ پڑھاتے
تھے۔
شادی:
علامہ عتیقی کی شادی ۱۹۹۲ء میں ہوئی۔
اولاد :
آپ کے
دوبیٹے اور ایک بیٹی اللہ کو پیاری ہوگئے جب کہ دوبیٹے اور ایک بیٹی بَہ قیدِ حیات
ہیں:
· بڑے
صاحبزادے محمد عزیر احمد انجینئرنگ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
· چھوٹے
صاحبزادے محمد عمیر احمد سینٹرل ماڈل اسکول میں میٹرک کے طالب ِعلم ہیں۔
تصانیف:
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی محمد گل احمد خاں عتیقی کی تصانیف کے نام یہ
ہیں:
· توضیحاتِ
عتیقیہ اُردو شرح مُناظرۂ رشیدیہ
· عتیقیہ
ترجمۂ شریفیہ
·
العتیقۃ ما فی
الرشیدیۃ
· توضیحاتِ
عتیقیہ بر جامع ترمذی
· خلاصۂ
مضامینِ سورِ
قرآن
· شرح
میبذی
· شرح مسلّم
الثبوت
· الاسراء
والمعراج (ترجمہ)
· المولد
الروی (ترجمہ)
· نشری
تقریریں
· سیّدنا
ابو بکر صدّیق (مختصر)
· سیّدنا
ابو بکر صدّیق (مفصّل)
· عظمتِ
شانِ صدّیق
· سیّدنا
امام حسین
· ازواجِ
مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنھن
· حضرت
داتا گنج بخش
· سیّدنا
الانام غوثِ اعظم
· اعلیٰ
حضرت کا نظریہ
· محدثِ
اعظم پاکستان
· شیخ
الحدیث علامہ غلام رسول رضوی شارحِ بخاری
·
توضیح الکامل لحل
المحصول والحاصل
· شرح
تفسیرِ بیضاوی
· شرح مختصر
المعانی
· شرح مطوّل
· شرح قطبی
· شرح میر
قطبی
· شرح
شرح عقائد
· شرح
شرح عقائدِ خیالی
· مقدمۂ
مرقات شرح اُردو مرقات
· شرح
شرح جامی
· مقدمۂ
جامی شرح اردو جامی
· شرح
حسامی
· غنیۃ
الطالبین (ترجمہ)
· شرح حمد
اللہ (فارسی)
· شرح حمد
اللہ (اُردو)
· شرح
اُمورِ عامّہ
· اِمامتِ
کبریٰ (۳؍ مقالے)۔
ماخوذ:
’’امیر المجاہدین
کے اساتذۂ کرام‘‘، از: حافظ مبشرسعید مرتضائی، مشمولۂ ماہ
نامہ’’العاقب‘‘ لاہور (قائدِ عزیمت نمبر)، ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ/ نومبر ۲۰۲۲ء،
صفحات 277 تا 284 (مُلَخَّصًا)
وصالِ پُر ملال:
طویل
علالت کے بعد، 23؍ شعبان المعظّم مطابق 5؍ مارچ 2024ء، بروز منگل، آپ لاہور میں انتقال فرماگئے۔
گل احمد خان عتیقی ، شیخ الحدیث مفتی محمد
اسمِ گرامی: گل
احمد خان ۔
چھوٹے
چچاراجہ محمد ایوب خان نے پہلے آپ کا نام بدرالزمان خان رکھا؛ بعدمیں، معلوم ہوا
کہ اس علاقے میں اِس نام کا ایک اور شخص بھی ہے اس لیے بدل کر گل احمد خان رکھا
گیا۔
عتیقی:
1965ء
میں دورانِ تعلیم حضرت سیّدنا ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
عقیدت کی بنا پر آپ نے خود ہی
اپنے نام کے آگے ’’عتیقی‘‘ کی نسبت بھی
شامل کرلی۔
سنِ
پیدائش: 1949ء۔
مقامِ پیدائش: سربن،تحصیل ہٹیاں، کشمیرآباد۔
والدِ ماجد: علی حیدر خان۔
جدِّ امجد (دادا): زبردست خان۔
تعلیم و تربیت:
آپ کے
دادا زبردست خاں متبعِ شریعت وتہجد کے
پابند بزرگ تھے۔ گاہے ساری رات نوافل میں گزاردیتے۔ مولانا عتیقی اکثر ان کے پاس
بیٹھے رہتے، وہ آپ کو کھانا بھی اپنے ساتھ کھلاتے اور کھانے پینے کے آداب بتاتے۔
پھر ان کے بعد دادی، والد اور تایا ابراہیم خان بھی خصوصی تربیت فرماتے رہے۔
آپ کے
گھر اکثر علما و مشائخ کی آمد ورفت رہتی ۔ علمی بحث مباحثے ہوتے رہتےحتّٰی
کہ پوری رات مختلف مسائل پر بحث چلتی ۔ مولانا عتیقی دورانِ تعلیم جب کبھی گھر
جاتے تو آپ کی والدۂ مرحومہ اور تایار اجہ محمد ابراہیم خان مرحوم امتحاناً
ان سے مسائل پو چھتے رہتے ۔ ایک دفعہ آپ کی والدۂ مرحومہ نے ’’پند نامہ‘‘ کے
مصرعہ ’’قول اور الحن نے آوازے نے‘‘ کا مطلب پوچھا تو آپ کَمَّا
حَقُّہٗ اس
کی وضاحت نہ کر سکے اور پھر تایا صاحب نے بھی اتفاقاً اسی مصرعے کا
مطلب پو چھا جو آپ کو نہ آیا تو علیحدہ لے جاکر فرمایا:
’’بیٹے! یک من علم
را دہ من عقل باید‘‘
ناظرہ
قرآنِ مجید اپنی مسجد کے امام ملامحمد شریف اور اپنے گھر کے افراد سے پڑھا۔
پرائمری تک اسکول کی تیاری اپنے چچا راجہ محمد ایوب خان سے کی اور پرائمری
کا امتحان اسکول بانڈی سیداں میں دیا پھر اسی سکول کے لوئر مڈل ہونے کی وجہ سے
ساتویں جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی جب چھٹی جماعت کا امتحان پاس کیا تو
والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔
علامہ
عتیقی بانڈی سکول کے ماسٹرصدرالدین اور ماسٹر علی حید رصاحب سے بہت متاثر ہیں ۔
۱۹۵۸ء
میں والدۂ ماجدہ مرحومہ مغفورہ اور والدِ محترم کی وصیت کے مطابق اسکول کی تعلیم
چھوڑ کر جامعہ تعلیم الاسلام پہنچے چوں کہ داخلے کا وقت نہیں تھا اس لیے رختِ سفر
باندھ کر لاہور آگئے اور جامعہ گنج بخش میں داخلہ لے کر قاری محمد طیّب صاحب
سے قرآنِ پاک کا تلفظ ٹھیک کیا، ان سے سورۂ یٰسین، سورۂ مُلک اور تیسویں پارے کا
نصفِ آخر بھی یاد کیا۔
بعدازاں
صوفی محمدبشیر صاحب کے مشورے کے مطابق گوجرانولہ جا کر حضرت مولانا ابو داؤد محمد
صادق صاحب کے مدرسے سراج العلوم میں داخلہ لے کر سکندر نامے تک فارسی حضرت مولانا
مفتی محمد عبداللہ سے پڑھی اور صرف کی ابتدائی کتب مولانا عبداللطیف سے پڑھیں۔ پھر
جامعہ غوثیہ، بھابڑا بازارمیں داخلہ لے کر حضرت مولانا غلام محی الدین صاحب سے
رسائل منطق وغیرہ اور مولانا سیّد حسین الدین شاہ صاحب سے مراح الارواح وغیرہ کتب
پڑھیں اور اسی سال جامعہ رحمانیہ، ہری پور ہزارہ میں شیخ الحدیث علامہ مولانا پیر
سیّد زبیر شاہ صاحب سے علم الصیغہ، ہدایۃ النحو، نورالانوار اور مولانا
عبدالعزیز صاحب سے کچھ قانونچہ اور اوسط وغیرہ کتب پڑھیں۔
پیدل سفر اور قرض:
مولانا
عتیقی نے طالبِ علمی کے زمانے میں تحصیلِ علم
کے لیے کئی پیدل سفر بھی کیے، مگر دو بڑے سفر یہ ہیں:
· گجرات
بسال سکھا سے گوجرانوالہ تک
· گوجرانوالہ
سے واں بچھراں تک۔
نیز،
طالبِ علمی کے زمانے میں ہاتھ پھیلانے کی بجائے قرض لے کر پڑھتے رہے، جو آپ نے تدریس کے دوران اُتارا۔
اَساتذکرام:
علامہ
عتیقی نے جن شخصیات سے کسبِ فیض کیا، اُن کے اَسماء یہ ہیں:
1. راجہ
زبر دست خان( آپ کے دادا)
2. راجہ
محمد ابراہیم خان( آپ کے چاچا)
3. راجہ
محمد ایوب خان( آپ کے چاچا)
4. علامہ
عطا محمد چشتی بندیالوی گولڑوی
5. شیخ
القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی
6. علامہ
غلام رسول رضوی
7. علامہ
سیّد محمد زبیر شاہ
8. علامہ
سیّد غلام محی الدین
9. علامہ
سیّد حسین الدین شاہ مد ظلہ العالی
10.
مفتی محمد
عبدالقیوم ہزاروی
11. ماسٹر
صدر دین
12. ماسٹر
علی حیدر
13.
مولوی محمد شریف
14.
علامہ مفتی محمد
عبداللہ مردانوی
15.
علامہ اللہ بخش وا
بچھراں (رحمۃ
اللہ تعالٰی علیھم)
تدریس :
اپنوں
اور بےگانوں کی شدید مخالفت کے باوجود جامعہ رضویہ مظہر الاسلام، فیصل آباد سے
بحیثیتِ صدر مدرس تدریس کا آغاز کیا۔ ڈیڑھ سال تک وہاں تدریس فرماتے رہےپھر ۱۹۶۹ء
سے ساڑھے چار سال تک جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور میں تدریس فرمائی۔ اس کے بعد ڈیڑھ
سال جامعہ نعمانیہ، لاہور میں اور پھر دوبارہ ایک سال ۱۹۷۵ء کو جامعہ نظامیہ
لاہور میں مدرس رہے۔
بعدازاں
تقریبا دس سال تک دوبارہ جامعہ رضویہ مظہر الاسلام، فیصل آباد میں تدریسی جوہر
دکھائے۔ علامہ عتیقی وہاں صدر مدرس اور نائب مفتی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے
رہے۔ اس دوران آپ نے جامع ترمذی پڑھانے میں حد درجہ محنت کی۔ چوں کہ نوجوان تھے
اور دیگر شیوخ کو کتبِ احادیث پڑھاتے ہوئے ایک عمر گزر چکی تھی ؛تاہم آپ نے محنت
سے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔
تلامذہ:
شیخ
الحدیث حضرت علامہ مفتی گل احمد خان عتیقی سے اب تک سیکڑوں علما نے اکتسابِ علم
کیا۔
چند
تلامذہ کے نام یہ ہیں:
· شیخ
الحدیث حافظ عبدالستار سعیدی
· شیخ
الحدیث مولاناصدّیق ہزاروی
· مولانا
سیّد غلام مصطفیٰ بخاری عقیل
· مولانا
محمد صادق علوی
· مولانا
شیرمحمد رضوی
· مولانا
غلام یٰسین رضوی
· مولانا
محمد سعید قمر
· مولانا
خواجہ وحید احمد
· مولانا
پیر سیّد فیض محی الدین شاہ
· مولانا
کما ل الدین
· مولانا
محمد احسان اللہ
· مولانا
محمد اظہا راللہ
· مولانا
حبیب الرحمٰن
· مولانا
قاضی وحید احمد
· مولانا
محمد آصف ہزاروی
· مولانا
الطاف حسین نیروی
· مولانا
سیّد شاہد حسین شاہ
· مولانا
نعمت اللہ خان ضیائی
· مولانا
عبدالوحید
· مولانا
محمد صدّیق زاہد عرفانی
فتویٰ نویسی:
جامعہ
رضویہ فیصل آباد میں دس سالہ تدریس کے دوران مفتی گل احمد خان عتیقی نے نہایت محنت
کے ساتھ نو (۹) سال فتویٰ نویسی کی خدمات سر انجام دیں۔ سردیوں میں بھی رات دو بجے
تک جاگتے رہتے۔ نو سال میں آپ نے ہزاروں فتاوٰی لکھے اگر انہیں محفوظ کرلیا جاتا
تو یہ ایک عظیم فتاوٰی کتابی صورت میں موجود ہوتا۔
بیعت:
شیخ
الحدیث حضرت علامہ مفتی گل احمد عتیقی ۱۹۵۹ء میں دارالعلوم سراج العلوم
(گوجرانوالہ ) میں تعلیم کے دوران شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا ابو الفضل
محمد سردار احمد قادری چشتی محدثِ اعظم پاکستان کے دستِ اقدس پر بیعت
ہوئے۔
دینی وملی و سیاسی تحاریک میں حصّہ :
مفتی
گل احمد عتیقی صاحب کے کشمیری خاندان کا شمار حکمران خاندانوں میں ہوتا ہے جو عرصۂ
دراز تک سیاسی افق پر چھایا رہا، اس لیے سیاست آپ کو وراثتاً ملی ہے۔ آزاد کشمیر
کے معروف سیاست دان راجہ علی حیدر خان مرحوم بن راجہ فاروق حیدر خاں سابق صدر مسلم
کانفرنس آپ کی برادری سے ہیں۔ آپ دو مرتبہ جمعیت علمائے جموں وکشمیر کے سینئر نائب
صدر، ایک مرتبہ نائب صدر دوم اور ایک مرتبہ ۱۹۷۰ء میں لاہور ڈویژن کے صدر رہ چکے
ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں جمعیت علمائے پاکستان وسطی لاہور کے صدر اور کنویئر رہ چکے ہیں۔
علامہ عتیقی مرکزی مجلس شوریٰ جمعیت علمائے پاکستان کے رکن بھی رہے ہیں۔ رابطۃ
المعلمین مدارسِ عربیہ پاکستان کے رکن اور اخوان المؤمنین پاکستان کے معاون اور
سنّی علما کونسل( فاروق آباد) کے سرپرست بھی رہ چکےہیں۔ نیز آپ انجمن طلبۂ مدارسِ
عربیہ اور سنّی جمعیت علمائے جموں و کشمیر کے سر پرست رہ چکے ہیں۔
مولانا
عتیقی نے طالبِ علمی کے زمانے سے ہی تحریکات میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ چنانچہ
شورش کا شمیری نے کانگریسی علما کے کہنے پر علمائے اہلِ سنّت
کے خلاف جو تحریک شروع کی تھی، آپ نے اپنے ساتھیوں مولانا سیف الرحمٰن چترالی اور
مولانا غلام مرتضیٰ ہزاروی کے ساتھ مل کر اس تحریک کو کچلنے کے لیے بھر پور کردار
ادا کیا۔ یہ تینوں ساتھی مل کر رات کو اپنے اشتہار لگاتے اور علمائے اہلِ سنّت
کے جلسے کرواتے، اس طرح چند دنوں میں کانگریسی علما کی تحریک دم توڑگئی اور وہ
دفاع پر مجبور ہوگئے۔
1970ء
میں بھٹو شاہی کے خلاف تحریک کا حصّہ بھی بنے۔
1974ء
کی تحریکِ ختمِ نبوّت لاہور میں سب سے پہلے جلوس کی قیادت حضرت مولانا گل احمد
عتیقی نے مولانا محمد رشید نقشبندی، مولانا علی احمد سندیلوی وغیرہم کے ساتھ
کی۔ اس کے علاوہ آپ نے علامہ سیّد محمود احمد رضوی اور نوابزادہ نصر اللہ خان کے
ساتھ مل کر لاہور میں کئی جلسوں سے خطاب کیا اور راولپنڈی کے مدرسۂ تعلیم میں بہت
بڑے اجتماع میں شرکت کی۔ اسی طرح ایک مرتبہ جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور سے رات کے
وقت دینی طلبہ کا جلوس نکال کر اس وقت کے لاہور کے ڈی سی او اور وزیر اعلیٰ پنجاب
محمد حنیف رائے کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
علامہ
عتیقی نے ۱۹۷۷ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰﷺ میں بھرپور حصّہ لیا۔ موصوف اُس وقت جامعہ
رضویہ فیصل آباد میں صدر مدرّس اور مفتی تھے اور لاہور سمن آباد میں جمعہ پڑھاتے
تھے۔
شادی:
علامہ عتیقی کی شادی ۱۹۹۲ء میں ہوئی۔
اولاد :
آپ کے
دوبیٹے اور ایک بیٹی اللہ کو پیاری ہوگئے جب کہ دوبیٹے اور ایک بیٹی بَہ قیدِ حیات
ہیں:
· بڑے
صاحبزادے محمد عزیر احمد انجینئرنگ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
· چھوٹے
صاحبزادے محمد عمیر احمد سینٹرل ماڈل اسکول میں میٹرک کے طالب ِعلم ہیں۔
تصانیف:
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی محمد گل احمد خاں عتیقی کی تصانیف کے نام یہ
ہیں:
· توضیحاتِ
عتیقیہ اُردو شرح مُناظرۂ رشیدیہ
· عتیقیہ
ترجمۂ شریفیہ
·
العتیقۃ ما فی
الرشیدیۃ
· توضیحاتِ
عتیقیہ بر جامع ترمذی
· خلاصۂ
مضامینِ سورِ
قرآن
· شرح
میبذی
· شرح مسلّم
الثبوت
· الاسراء
والمعراج (ترجمہ)
· المولد
الروی (ترجمہ)
· نشری
تقریریں
· سیّدنا
ابو بکر صدّیق (مختصر)
· سیّدنا
ابو بکر صدّیق (مفصّل)
· عظمتِ
شانِ صدّیق
· سیّدنا
امام حسین
· ازواجِ
مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنھن
· حضرت
داتا گنج بخش
· سیّدنا
الانام غوثِ اعظم
· اعلیٰ
حضرت کا نظریہ
· محدثِ
اعظم پاکستان
· شیخ
الحدیث علامہ غلام رسول رضوی شارحِ بخاری
·
توضیح الکامل لحل
المحصول والحاصل
· شرح
تفسیرِ بیضاوی
· شرح مختصر
المعانی
· شرح مطوّل
· شرح قطبی
· شرح میر
قطبی
· شرح
شرح عقائد
· شرح
شرح عقائدِ خیالی
· مقدمۂ
مرقات شرح اُردو مرقات
· شرح
شرح جامی
· مقدمۂ
جامی شرح اردو جامی
· شرح
حسامی
· غنیۃ
الطالبین (ترجمہ)
· شرح حمد
اللہ (فارسی)
· شرح حمد
اللہ (اُردو)
· شرح
اُمورِ عامّہ
· اِمامتِ
کبریٰ (۳؍ مقالے)۔
ماخوذ:
’’امیر المجاہدین
کے اساتذۂ کرام‘‘، از: حافظ مبشرسعید مرتضائی، مشمولۂ ماہ
نامہ’’العاقب‘‘ لاہور (قائدِ عزیمت نمبر)، ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ/ نومبر ۲۰۲۲ء،
صفحات 277 تا 284 (مُلَخَّصًا)
وصالِ پُر ملال:
طویل
علالت کے بعد، 23؍ شعبان المعظّم مطابق 5؍ مارچ 2024ء، بروز منگل، آپ لاہور میں انتقال فرماگئے۔


