طفیل احمد رضوی نوری، مناظر اہلسنت، علامہ مفتی محمد، رحمۃ اللہ تعالی علیہ
تاریخِ ولادت واسم گرامی:
آپ کی ولادت ٢١/صفرالمظفر ۱۳۸۰ھ مطابق ١٤ اگست ۱۹٦۰ء کو بروز یکم شنبه ضلع کٹیہار (موضع آباد پور) پرمانک ٹولہ میں ہوئی ۔ اور والدین نے آپ کا نام (ایک صحابی رسول حضرت طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نام) کے نسبت سے محمد طفیل احمد رکھا
سیرت وخدمات:
تاریخ ساز شخصیات میں ایک نام مناظر اھل سنت علامہ مفتی محمد طفیل احمد رضوی نوری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہے، آپ علم و تقویٰ کے پیکر، ظاہری و باطنی فیوض و برکات کے درخشاں، درس و تدریس کے ماہر، صبر وقناعت کے بحر بے کراں، مسلک اعلیٰ حضرت کے پاسباں، وعظ وخطابت کے شہنشاہ، اخلاقی اوصاف سے پر اور مرجع‘ خاص و عام تھے۔
آپ کے والد ماجد (جناب عین الدین مرحوم) شرافت، دیانت، پاکبازی اور مہمان نوازی میں مشہور تھے، دیندار اور صوم وصلاة کے سخت پابند تھے، نیز آپکی والدہ ماجدہ بھی نہایت نیک، پاک سیرت عفیفہ، صوم و صلاة کی پابند تھیں اور قدوة العارفین خواجہ وحید اصغر لطیفی قدس سرہ (تکیہ شریف رحمٰن پور) سے آپکے والدین بیعت تھے ۔
آپ کی زندگی کا اکثر حصہ تعلیم وتدریس، وعظ وخطابت، رشد وہدایت، ودیگر دینی خدمات میں صرف ہوا ۔حضرت نے ایک گمنام علاقے میں دینی خدمات انجام دی ۔ علامہ موصوف کی دینی خدمات بڑا ہی وسیع وعریض ہے، مسلسل ۳۲ سال کے زائد عرصے میں تدریسی خدمات انجام دیں۔نیز آپ کی زندگی کا سب سے نمایاں کارنامہ مناظرہ ومباحثہ اور کثیر تعداد میں مساجد ومدارس کا قیام کرنا ہے، اسی طرح علماء کی مقدس جماعت تیار کرنا وغیرہ شامل ہے۔
آغاز تعلیم اور اسکے مراحل:
آپ کی ابتدائی تعلیم آبادپور کے مدرسہ میں ہوئی۔ یہاں کچھ دن تعلیم حاصل کی پھر آپ نے اعلیٰ تعلیم کیلئے اہل خانہ سے درخواست کی لیکِن اہل خانہ نے منع کر دیا اسی طرح معاملہ چلتا رہا ایک دن اتفاقاً حضرت مولانا عبدالقادر رضوی شاگرد صدر العلماء غلام جیلانی میرٹھی علیھما الرحمہ (عرف حاسرو مقام تسلیا آبادپور) سے ملاقات ہوئی دوران گفتگو انہوں نے یہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آپکا چہرہ تو عالموں جیسا ہے، آپکو باہر تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔
چنانچہ یہ مشورہ آپکے دل میں تیر کے مانند چبھ گیا پھر کیا ہوا یہی کہ اہل خانہ کو بتاۓ بغیر اس غربت کے عالم میں حصول علم کے لیے نکل پڑے۔ اور مدرسہ یتیم خانہ سیوان جا پہنچے۔
تکمیل تعلیم:
کچھ عرصہ (مدرسہ یتیم خانہ سیوان) رہ کر مدرسہ فیض الرسول براؤں شریف (جو ایک عظیم درس گاہ ہیں) تشریف لے گئے وہاں اُس وقت (حضرت فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ القوی کی ذات جلوہ گر تھیں) وہاں تقریبا دو سال علمی فیضان سے پر ہو کر جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیے اور حضرت شارح بُخاری مفتی شریف الحق امجدی و بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی علیھما الرحمہ جیسی شخصیات سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔
بعد عالمیت وہاں سے بریلی شریف(جمعہ رضویہ منظر اسلام) کی جانب رخ کیے (١٨جمادی الاول ١٤٠٢ھ بمطابق ١٤ مارچ ١٩٨٢ء بروز یکشنبہ 22 سال کی عمر میں) آپنے وہاں فضیلت کی تعلیم اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔
اساتذہ:
حضرت کی عظمت و بزرگی کیلیے یہی کافی ہوگا کہ آپ نے
حضور مفتی اعظم ہند،
حضور ریحان ملت،
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی،
بحرالعلوم علامہ مفتی عبد المنان اعظمی،
فقیہ ملت حضرت مفتی جلال الدین احمد امجدی
اور امام علم و فن خواجہ مظفر حسین رضوی علیہم الرحمۃ جیسے عظیم ہستیوں کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کیں۔
شرفِ بیعت:
آپ علیہ الرحمۃ ایسے ہستی سے بیعت ہیں جنہیں دنیا (شبیہ غوث اعظم، مرجع العلماء والمشائخ، امام العارفین، مجدّد ابن مجدّد شیخ الاسلام والمسلمین وغیرہ) القابات سے یاد کرتی ہے میری مراد حُضور مفتی اعظم ہند امام مصطفی رضا خان قادری نوری قدس سرہ القوی کی ذات ہے چنانچہ مناظر اہل سنت کو حضرت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ الرضوان نے (۱۹۷۸ء میں) سلسلہ قادریہ، برکاتیہ رضویہ، نوریہ میں(دوران درس) داخل فرمایا۔
تدریسی زندگی:
بعد فراغت آپ رحمۃ اللہ علیہ تدریس کا آغاز مدرسہ انوارالعلوم جین پور (اعظم گڑھ اتر پردیش) سے کی نیز اپنے کرم فرما استاذ امام علم و فن (حضرتِ خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی رحمۃ اللہ علیہ) کے ایماء پر وہاں سے اپنے علاقے میں حُضور مفتی اعظم ہند نوراللہ مرقدہ کا قائم کردہ ادارہ (الجامعۃ النظامیہ فیض العلوم ملکپور دلکولہ: جو آبادپور سے تقریباً دو گھنٹے کا راستہ ہے) کی جانب رخت سفر باندھے اور یہاں کچھ عرصہ تک تدریس فرمائے۔
بعد ازاں مغربی بنگال (اشاپور و علی پور کلیاچک) میں تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً سات برس تک مسلسل دینی خدمات انجام دیں اسی طرح آپ کا قائم کردہ (دارالعلوم جہانگیریہ منظر اسلام بچباری) میں تقریباً پچیس برس تک تدریس فرماتے رہے۔
تبلیغی دورے:
عمومی طور پر شہروں اور گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے اندر دینی شعور تھوڑا بہت ہوتا ہے، جبکہ شہروں سے دور رہنے والے لوگ بعض دفعہ دینی تعلیمات سے محروم رہ جاتے ہیں، ایسے عالم میں لوگ گمراہیت کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں چنانچہ مناظر اہل سنت نے ایسے علاقوں میں دورے کیے اُن کو داخلہ بیعت فرمایا اور مسلک اعلی حضرت کی شمع اُن کے دلوں میں روشن کر دی ۔
اس حوالے سے صوبہ بنگال وبہار اور جھاڑ کھنڈ، کے اکثر اضلاع جسمیں۔۔(شہر کلکتہ، سلی گڑی، راج محل، مرشد آباد، بیربھوم، کشن گنج، کلیاچک، مالدہ، کٹیہار، رائے گنج، بنگلہ دیش بوڈر آتے ہیں) اور مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے دیہاتوں میں آپکی تبلیغی دورے ہوئے ۔
اخلاق و کردار:
مناظر اہلسنت ایک جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے، آپ جہاں ایک باصلاحیت مدرس، مفتی، مناظر، مبلغ وخطیب تھے، وہیں آپ اخلاق کے دھنی بھی تھے،
آپکے خلوص و ایثار حسن سادگی اور اخلاقِ عالیہ کے مخالف و موافق سبھی معترف تھے۔علماء ومشائخ کے ساتھ آپ کا حسن سلوک اسٹیج پر نشست و برخاست جلوت و خلوت میں گفت وشنید کے دوران آپ کے معاملات کو راقم السطور نے بنفس نفیس دیکھا۔
اسی حسن کردار کی وجہ سے آج بھی لوگ آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں حتی کہ آپکے بعض متعلقین تو آپ کی محبت میں باضابطہ روتے ہیں، نیز غیر مسلم بھی آپ کے اخلاق وکردار سے متأثر تھے، گویا آپ اخلاق نبوی ﷺ کے مظہر اتم تھے۔
تصلب فی الدین:
یہ وہ عظیم وصف ہے جو مرد مومن کو بہت سے درجات و مناصب جلیلہ سے معراج کمال اللہ ورسول ﷺ کی محبوبیت تک پہنچا دیتاہے، چنانچہ مناظر اہلسنت کی زندگی کا جب ہم نے جائزہ لیا تو آپ‘ اس عظیم وصف کے سچے مصداق تھے، اس کی تصدیق یہ ہے کہ آپ کے کچھ رشتدار بدمذہب بھی ہے مگر ان رشتوں کے پرواہ کیے بغیر ہر قسم کے تعلقات الغرض ہر وہ کام جس سے بدمذہبوں سے انسیت و وابستگی یا میلان کا اظہار ہو ان سے دوریاں فرماتے اور اسی لئے مناظراھلسنت اپنے وصیت میں یہ فرماتے تھے کہ میری وصیت میرے مریدوں احباب خاندان کے لئے یہی ہے کہ دیوبندی وہابی صلح کلی جیسے گندے عقائد سے کسی طرح کی رشتہ داری نہ رکھے اور سختی سے مسلک اعلی حضرت پہ قائم رہیں۔
دارالعلوم جہانگیریہ منظر اسلام کا قیام:
یہ ادارہ آبادپور تھانہ کے قریب واقع ٢/کیلومیٹر کے فاصلے پر مقام بچباری میں قائم ہے، ادارے کی زمین کا کچھ حصّے بہار اور کچھ حصہ بنگال میں ہے۔۔نیز ادارے کو قائم کرنے کا سبب یہ بنا، کہ آبادپور کے گردونواح، بستیوں میں اسوقت باضابطہ طور پر اہلسنت والجماعت کا کوئی معیاری تعلیمی ادارہ نہ تھا جسکی بنا پر مناظراہلسنت نے اس ضرورت حال کو محسوس کیں اور آپ کی مسلسل جد وجہد نے ادارہ ھذا (سن ۱۹۸۹ء کو) قیام عمل میں لایا۔
المختصر یہ کہ ادارے کی تعلیمی، تعمیری وترقی کیلئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی وقف کر دی نیز آپ کی یہ ہمت مردانگی ہی تھی کہ ایک جنگل میں عظیم مدرسے کی بنیاد ڈالی اور آج علاقے میں یہ مدرسہ (دارالعلوم جہانگیریہ منظر اسلام بچباری) مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔۔
تصنیف وتالیف:
مناظر اہلسنت علیہ الرحمۃ کا زیادہ تر وقت تدریس وخطابت، بحث ومناظرہ اور دعوت وتبلیغ میں گزرا، لہذا آپ علیہ الرحمۃ کو تحریر و تصنیف کے لئے بہت کم اوقات میسر آیا اسکے باوجود آپ نے کئی یادگار تصنیفیں بھی چھوڑی لیکن افسوس! کہ کسی نے اسکو سرقہ بازی کر کے اہم درسی کتب کے (شرح و نوٹس) ضائع کر دیا، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نصیب فرمائے (آمین)
اجازت وخلافت:
چونکہ آپ علیہ الرحمۃ کا دینی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی (خواہ درس وتدریس کی خدمات ہو، مساجد ومدارس کا قیام ہو، نیز قریہ قریہ، گاؤں گاؤں جا کر دین وسنیت کی تبلیغ کے حوالے سے ہو، اسی طرح فرقہ باطلہ سے مناظرہ ہو وغیرہ) لہذا آپ کو انعام‘ تو ملنا ہی تھا چنانچہ اسی دینی خدمات کے جذبے کو دیکھکر تین بزروگوں نے آپ علیہ الرحمۃ کو اجازت وخلافت سے نوازا۔
وہ تین عظیم بزرگ یہ ہیں:
)۱(بقیة السلف حجة الخلف خلیفہ حُضور مفتی اعظم پیر طریقت حضرت علامہ مفتی عبدالخالق نوری پورنوی۔
(سابق شیخ الحدیث منظر اسلام بریلی شریف) دامت برکارتہم العالیہ
)۲(نبیرہ اعلی حضرت جگر گوشہ ریحان ملت، پیر طریقت تاج السنہ حضرت علامہ الشاہ محمد توصیف رضا خاں قادری بریلوی دامت برکاتہم الاقدس
)۳(اور مناظر اعظم ہند فقیہ النفس خلیفہ حُضور مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنوی دام ظلہ علینا
وصال شریف ایک لمحہ فکر:
حضرت کو مار دیا گیا، معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ آپ کے قریبیوں میں سے آپ کو شہید کروا دیا گیا جادو ٹونہ (جو غیروں کا طریقہ ہے) کے ذریعے آپ کو کافی دن تک علالت میں رکھا اذیتیں دیتے رہے۔
چنانچہ یہ تقویٰ و طہارت کا پیکر، حسنِ اخلاق کا مظہر، عشق و وفا کا چمکتا آئینہ، دین وسنیت كا رہنما ہمیشہ کےلیے۲۲ ذی الحجہ ١٤٣٧ھ بمطابق ٢٣ ستمبر ٢٠١٦ء بروز شبِ جمعہ ٣ بج کر ٢٥ منٹ پر بحالت علالت ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے اس دار فانی سے داعی اجل کو لبیک کہہ گیے۔ انالله وانا الیہ راجعون۔
آپ کی نمازِ جنازہ مناظر اعظم حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن رضوی پورنوی دام ظلہ علینا نے پڑھائی۔
اور مدرسہ دارالعلوم جہانگیریہ منظراسلام بچباری شریف (چانچل مالدہ بنگال) کے احاطے میں آپ ابدی آرام فرما ہیں۔
