علامہ اکمل الدین بابرتی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:کنیت: ابو عبد اللہ۔اسم گرامی:محمد۔لقب: اکمل الدین۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:ابو عبدا للہ محمد بن محمد بن محمود بابرتی علیہم الرحمہ۔’’بابرتی‘‘ ایک قصبہ کانام ہے جو بغداد کےنواح میں واقع ہے،اور یہی اقویٰ ہے،اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کی نسبت’’بابرت‘‘ کی طرف ہے جوترکی کاحصہ ہے۔(مقدمہ عنایہ شرح ہدایہ)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 710ھ،1314ء کوبغداد معلی ٰعراق میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی،پھر حلب شام کی طرف تشریف لےگئے،وہاں کے علماء سے استفادہ کیا۔پھر قاہرہ مصر میں علومِ دینیہ کی تکمیل کی۔آپ کے شیوخ میں قوام الدین کاکی،ابوحیان اندلسی،شمس الدین الاصفہانی،علامہ ابن الھادی،علامہ دلاصی وغیرہ ۔
سیرت وخصائص:امام محقق،علامۂ مدقق،حافظ،ضابط،فقیہ،محدث،لغوی،صرفی،عارف،عالم ِمعانیوبیان،جامع علووفنون،عدیمالنظیر،فقید المثال،قوی النفس،عظیم الہیبت،قوی العلم والعمل حضرت علامہ محمد بن محمد بن محمود بابرتی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ کاعلماءِ ماتریدیہ حنفیہ میں ایک اہم مقام ہے۔
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اکمل الدین محمد بن محمد بن محمود بابرتی (علیہم الرحمہ)،علامۃ المتأخرین،خاتمۃ الحققین،علم وفضل تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ علامۂ زماں،فاضلِ یگانہ،وافر العلم والعقل تھے۔سلاطین وامراء پر آپ کی ہیبت تھی۔
علامہ ابن حماد حنبلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: آپ فقہ ،عربی،لغت،تمام اصول وفنون،کے ماہر تھے۔
علامہ عبد الحی لکھنوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ان کی مثل ان کےزمانے میں کسی نے نہیں دیکھا۔آپ حدیث اور تمام علوم میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔نحو،صرف،لغت،بیان،معانی،تفسیر،اصول وفروع میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔
ابن یاس علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: فقہاءِ حنفیہ میں عظیم حیثیت کےمالک تھے۔علامۂ زماں،فرید العصر،اور زمانےکی عظیم شخصیات میں سےتھے۔
( ماخوذ،حسن المحاضرہ فی تاریخ المصر والقاہرہ)
آپ کو علم وعمل،اور تقویٰ کی بناءپر خانقاہ ِ شیخونیہ کی مشیخت دی گئی اور کئی مرتبہ عہدۂ قضاء کی پیش کش کی گئی، مگر آپ نے عہدۂ قضاء قبول نہ فرمایا۔ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔امر بالمعروف ونہی عن المنکراور حکمرانوں کےسامنے احقاق حق ابطالِ باطل کاخوب فریضہ انجام دیتےتھے۔ساری زندگی دینِ متین کی خدمت فرمائی۔امتِ مسلمہ کونافع کتب کی صورت میں کتب کا ذخیرہ عطاء کیا۔کتب میں شرح مشارق الانوار فی علم الحدیث،عنایہشرح ہدایہ،شرح مختصر ابن حاجب،شرح منار،شرح فرائض سراجیہ،شرح تلخیص جامع خلاطی،شرح تجرید طوسی،شرح الفیہ ابن معطی،حواشی تفسیر کشاف،شرح کتاب الوصیہ امام ابو حنیفہ،الارشاد شرح فقہ الاکبر،شرح تلخیص المفتاح،کتاب التقریر،شرح اصول بزدوی،العقیدہ، کتاب الانوار(اصول میں) اور تفسیر قرآن مجید وغیرہ کثیر کتب تصنیف فرمائیں۔سید المحققین ابوالحسن میر سید شریف علی جرجانی ،شمس الدین محمد بن حمزہ ،اور بدرالدین محمود وغیرہ نے ان سے اخذ علوم کیا۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 19/رمضان المبارک 786ھ،مطابق 05/نومبر1384ء کوہوا۔شیخونیہ مصر میں مدفون ہوئے۔
ماخذومراجع: حدائق الحنفیہ۔حسن المحاضرہ فی تاریخ المصر والقاہرہ۔