حضرت مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت مولانا شاہ محمد حسین علیہ الرحمہ۔لقب:فخر الاصفیاء،علامۂ زماں،شہیدِ محبت،عمری،محبی،الہ آبادی۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی بن تفضل حسین۔علیہما الرحمہ۔آپ کاسلسلہ نسب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتاہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت1269ھ،مطابق 1853ءکومحلہ بہادرگنج،الہ آباد (انڈیا) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:ابتدائی تعلیم الہ آبادمیں حاصل کی،مولانا شکراللہ الہ آبادی سےابتدائی کتب پڑھیں۔پھرلکھنؤ کاسفرکیا۔وہاں مولانا نعمت اللہ فرنگی محلی،مولانا ابو الحسنات عبدالحئی فرنگی محلی اور قاری عبدالرحمٰن پانی پتی سے تعلیم پائی،تکمیل درسیات کے بعد حج کےلیےگئے،شیخ الاسلام سیداحمددحلان مکی سے سند حدیث حاصل کی۔
بیعت وخلافت: مکۃ المکرمہ میں سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کےدست حق پرست پربیعت ہوئے۔ریاضت کےبعد خلافت سے مشرف کیےگئے۔
سیرت وخصائص: شہید راہ محبت،رونق بزم عاشقاں،پیکر کشتگان،عاشقِ اولیاء،امام العلماء،رئیس الاصفیاء،جامع کمالات ِ علمیہ وعملیہ،معارف اسرارربانیہ،مہلک الوہابیہ والنجدیہ،مقبول بارگاہ ِصمدانی حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ نامورعالم،فاضل،صوفی بزرگ،عربی وفارسی کے زبردست ادیب، طبیب جسمانی اور روحانی تھے۔
ابتداءً مولوی اسماعیل قتیل،اورسیداحمدبریلوی کےخیالات سےمتاثرہوگئے تھے۔عوام وخواص میں"وہابی"معروف ہوگئےتھے۔لیکن جب حجازمقدس تشریف لےگئےاوروہاں شیخ الاسلام شیخ احمد بن زین دحلان مکی علیہ الرحمہ اورشیخ العرب والعجم حضرت شاہ امداداللہ مہاجرمکی علیہ الرحمہ کی صحبت سےمستفیدہوئے،اورجوذہن وقلب پربدعقیدگی کی میل آگئی تھی،وہ ان نفوس قدسیہ کی نگاہِ فیض سےصاف ہوگئی۔اسی طرح ہندوستان سےچارمرتبہ حجازمقدس کاسفرکیا۔ہرمرتبہ حالت تبدیل ہوتی گئی۔بالآخرآپ کا قلب ہرقسم کےگمراہ عقائدونظریات سےبالکل صاف ہوگیا۔اسی طرح آپ "مجلس ندوۃ العلماء"کےبانیوں میں سرگرم بانی تھے۔جب مولوی شبلی نعمانی کی مذہب سےآزادپالیسیاں ظاہرہونےلگیں،اورہرقسم کےافراداس میں شامل ہونےلگے،مجلس عاملہ کےخصوصی اجلاس میں آپ نےناظم ندوہ سےمعاملات کی صفائی کےلئے کہاتووہ آپ کےاس اقدام پربہت برہم ہوا۔اس اجلاس میں خلیفہ اعلیٰ حضرت عیدالاسلام حضرت علامہ مولانا عبدالسلام جبل پوری علیہ الرحمہ بھی آپ کےساتھ تھے۔مولوی شبلی جواب دینےکی بجائےخلافِ تہذیب اورنازیباگفتگو کرنےلگا۔یہ دونوں بزرگ وہاں سےبریلی شریف امام اہلسنت کی خدمت میں حاضر ہوئے،اورتمام روئیدادگوش گزارکی،اعلیٰ حضرت نےدونوں بزرگوں کوبہت ہی دعاؤں سےنوازاوران کی حق گوئی کی تعریف فرمائی۔
آپ علیہ الرحمہ ایک بہترین مدرس،مصنف،واعظ اوربہترین ادیب تھے۔آپ کی تدریس کادوردورتک شہرہ تھا،لوگ دوردرازسےسفرکرکےتحصیل علم کےلئے آپ کی خدمت میں حاضرہوتےتھے۔آخری عمرمیں اورادووظائف،تزکیۂ نفس،اورزیارات مزارات ِ مقدسہ میں مشغول رہنےلگے،تمام معمولات اہلسنت،بزرگان دین کےایام،میلاد شریف،معراج شریف کی محافل بڑےاہتمام سےمناتےتھے۔بلکہ الہ آبادمیں محفل میلاد،وشب معراج شریف،اورعرائس بزرگان دین کاشعورآپ نےہی بیدارکیاتھا۔اسی طرح آپ وہابیہ کےسخت مخالف تھے۔کیونکہ ان کی بدعقیدگی وبدعملی کامشاہدہ کرچکےتھے،اوران کےتمام معمولات کواندرسےدیکھ چکےتھے۔اس لئے آپ کی ذات دوسرےعلماء اہلسنت کی بنسبت ان کےلئے زیادہ تکلیف کی موجب تھی۔
یہی وجہ ہےکہ"مؤلفِ نزہۃ الخواطر"آپ کےمعمولات سےبڑےسیخ پاہوئے،اورموجدبدعت وشرک وغیرہ لکھ دیا۔آگےچل کرپھرخودہی تحریرکیا:"ان تمام باتوں کےباوجود نادرزمانہ تھے۔ذہن کی صفائی،سینہ کےصاف،دل کےپاک،حافظہ کےقوی،تقریرمیں مٹھاس،تحریرمیں خوبصورتی،طبیعت کی شرافت،اخلاق کی عمدگی،نظرمیں چمک،اوراچھی سیرت،حلیم وبردبار۔میں نےخودان سےتعلیم حاصل کی،اوران کی طرف سفرکرکےپہنچا۔کافیہ شرح ابن حاجب ،جامی،اورشرح تہذیب کاکچھ حصہ ان سےپڑھا"۔(نزہۃ الخواطر:538)
واقعہ وصال: آپ پہلے سماع کے شدید مخالفوں میں سے تھے۔پھر اتنا ذوق و شوق ہوا، کہ حج کے لیے گئے تو قوال مع ساز کےہمراہ لے گئے۔قوالی کثرت سےسنتےتھے۔قوالی سنتےسنتےحالتِ استغراق کی کیفیت طاری ہوجاتی،اورکافی دیرتک اسی حالت میں رہتےتھے۔9/رجب المرجب 1322ھ کواجمیرشریف بتقریب دعوت نواب سرور جنگ کےہاں مجلس سماع میں مدعو تھے، اجمیر شریف کے قوال حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کاکلام"آستیں بررو کشیدہ ہمچومکار آمدی" گارہے تھے،محفل پر ایک کیفیت طاری تھی، شاہ صاحب ہر مصرعے کی شرح فرماتے جاتے تھے، جب قوال مقطع پر پہنچے :
گفت قدوسی فقیرے درفناء ودربقاء |
|
خود نجود آزادبودی خود گرفتار آمدی |
"خود بخود آزاد" کی تکرار فرمائی اور نفس نفیس کی طرف اشارہ فرمایا۔ تیسری مرتبہ ادا کرنا چاہتےتھے کہ کیفیت بڑھ گئی، سر بسجدہ ہوگئے اور مقصود کو پہنچے۔آپ نےچار حج کیے،آخری حج کے موقع پر دربار نبوی میں دعاء کی تھی، کہ میری موت مدینہ منورہ میں آئے، یا اجمیر شریف میں۔یہ آپ کی دعاقبول ہوئی۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 9/رجب المرجب 1322ھ،مطابق وسط ستمبر 1904ءکوہوا۔آپ کامزارشریف "اجمیرشریف"میں مرجع خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔نزہۃ الخواطر۔