حضرت علامہ سیدامیر محمد شاہ الحسینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
و ۱۰۔۱۳۰۹ھ/ف۱۳۷۹ھ/ ۱۹۶۰م
آپ اپنے وقت کے اہلِ دل ، صوفی،عالم، بے نظیر عاشقِ رسول ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر کا بیشتر حصّہ تعلیم و تعلّم میں گزرا ہے۔ پورے سندھ میں اور اس سے باہر آپ کے تلامذہ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ تدریس کے ساتھ فتویٰ نویسی میں بھی آپ کو بڑا کمال حاصل تھا۔ دور دور سےفتاوٰی آپ کے پاس آتے تھے۔ آپ کے والدِ ماجد کا نام سیّد سوڈھل شاہ اور دادا کا نام سیّدویدھل شاہ تھا۔ قریہ امینافی ضلع و تحصیل دادومیں اقامت گزیں تھے جہاں پر حضرت سیّد امیر محمد شاہ الحسینی کی ولادت باسعادت ہوئی۔ قرآنِ حکیم میاں الھندو تنیو سے پڑھا۔
(سندھ جا اسلامی درس گاہ، ص ۵۲۳)
اس کے بعد بستی’’پرھیاڑن‘‘ میں مولوی محمدعارف کے پاس فارسی کی تعلیم مکمل کی۔ پھر عربی پڑھنے کے لیے دری دیرو کے قریب مولانا عبدالواجد جلبانی بلوچ کے ہاں آئے لیکن یہاں زیادہ عرصہ نہیں رہ سکے۔ بالآخر ہمایوں اسٹیشن کے قریب ’’میاں کاپٹ‘‘ میں علامہ محمد ہاشم انصاری پھلجی والے کے پاس سلسلۂ تعلیم شروع کردیا۔ مولانا مذکور دادو میں آکر رہنے لگے تو حضرت سیّد امیر محمد شاہ الحسینی بھی یہاں تشریف لے آئے اور یہں دادو میں جیون شاہ کی مسجد میں آپ کی دستارِ فضیلت ہوئی۔ فراغت کے بعد اپنے گاؤں (امینافی شریف)میں تدریس شروع فرما دی اور آخر عمر تک قَالَ اللہُ وَقَالَ الرَّسُوْل کی تعلیم دیتے رہے۔ حضرت سیّد امیر محمد شاہ الحسینی علیہ الرّحمۃ نے ستر سال کی عمر میں ۲۹؍ شوال ۱۳۷۹ھ اپریل ۱۹۲۰ء میں انتقال فرمایا۔ آپ کا مزار امینافی شریف ضلع دادو میں مرجعِ خلائق ہے آپ کے چند مشہور طلبہ کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:
۱۔ مولوی فیض محمد بھرگڑی۔ ہجرت کر کے مدینے شریف تشریف لے گئے اور وہاں انتقال فرمایا۔
۲۔ علامہ مولانا حاجی محمد اکتڑائی تحریکِ خلافت کے مشہور کارکن اور علامہ سیّد محمد بخش شاہ جیلانی علیہ الرحمۃ نو خور آئی شریف والے اور مولانا محمد ادریس ڈاھری، واعظ، کے استادِ محترم۔
۳۔ مولوی محمد عثمان میمن مورو۔
۴۔ مولوی محمد داؤد بگھیو مورو۔
۵۔ مولانا پیر غلام نبی جان سر ہندی بن شاہ آغا جان سرہندی رَحِمَھُمُ اللہُ تَعَالٰی۔
۶۔ مولانا سیّد چھٹل شاہ بخاری ۔ خیر پورنا تھن شاہ۔
۷۔ مولانا محمد سہراب چار دن دادو۔
اور ان کے علاوہ بے شمار علما و مشائخ آپ کے شاگرد و مرید ہیں۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )