حضرت شیرسرحد علامہ مولانا عزیز الرحمان رضوی، ڈیرہ اسماعیل خان علیہ الرحمۃ
بیباک و جرأت مند خطیب حضرت مولانا عزیزالرحمان بن جناب عبدالرحمٰن صاحب موضع چودھواں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (سرحد) کے ایک اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محکمۂ پولیس میں تھانیدار کے عہدے پر فائز ہیں۔
حضرت مولانا عزیزالرحمان نے مڈل تک اُردو تعلیم حاصل کی۔ قرآن پاک اپنے آبائی گاؤں میں حافظ محمد نواز سے حفظ کیا۔ تجوید و قرأت کا درس قاری عبدالرحمان بلوچستانی سے لیا۔[۱]
[۱۔ قاری صاحب موصوف اس وقت مدرسہ عربیہ انوارالعلوم میں شعبۂ کو تجوید کے مدرس تھے اور آج کل آپ نے مدرسہ سعیدیہ انوارالرحمٰن کے نام سے وڈھ (بلوچستان) میں ایک دینی ادارہ قائم کر رکھا ہے (مرتب)]
درسِ نظامی کی تمام کتب متداولہ اہل سنت و جماعت کی مرکزی دینی درس گاہ مدرسہ عربیہ انوارالعلوم ملتان میں حضرت مولانا منظور احمد پٹیالوی، مولانا غلام مصطفےٰ رضوی، مولانا محمد یوسف تونسوی، مولانا عبدالعزیز، مولانا پیر محمد چشتی اور حضرت مولانا مفتی سید مسعود علی رحمہ اللہ سے پڑھیں۔
غزالیٔ زماں حضرت مولانا علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی اور شیخ الحدیث علامہ مولانا محمد شریف رضوی سے درسِ حدیث لے کر مدرسہ عربیہ انورالعلوم ہی سے ۱۹۶۸ء میں سندِ فراغت و دستارِ فضیلت حاصل کی۔
طالب علمی کے دور سے ہی آپ نے خطابت شروع کردی تھی۔ فراغت سے سات سال پہلے اور ایک سال بعد تک باغ بھیگی ملتان شہر میں خطبۂ جمعہ ارشاد فرماتے رہے۔
۱۹۷۰ء میں شیخ الحدیث مولانا محمد شریف رضوی کے ارشاد پر جامع مسجد چوگلہ ڈیرہ اسماعیل خاں میں فرائض خطابت انجام دینے شروع کیے۔
اسی سال ایک دینی ادارے کا بھی اجراء فرمایا جہاں قرآن پاک کے حفظ کا معقول انتظام کیا گیا۔ ۱۹۷۴ء میں آپ نے ساڑھے گیارہ ہزار روپے میں جگہ خرید کر مسجد و مدرسہ کا وسیع تعمیری پروگرام شروع کیا۔
حضرت علامہ عزیزالرحمان تبلیغِ دین اور مسلکِ حقہ کی اشاعت کے عظیم جذبے سے بہرہ ور ہیں۔ آپ کی مسلسل تبلیغ اور سعیٔ پیہم کا یہ کرشمہ ہے کہ قائدِ اہل سنّت علامہ شاہ احمد نورانی و مجاہدِ ملت علامہ عبدالستار خان نیازی نے جب دسمبر ۱۹۷۷ء میں صوبہ سرحد کا دورہ کیا، تو ڈیرہ اسماعیل خان میں آپ کے زیرِ اہتمام جلسہ میں عوام کا اتنا بڑا اجتماع ہوا، جس کی مثال تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان میں نہیں ملتی۔
۱۹۷۲ء میں صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ نے مذہبی مخالفت کی بناء پر علامہ عزیزالرحمان رضوی کو پسِ دیوار زنداں بھیج دیا۔ ہری پور ہزارہ جیل میں ایک مہینہ رکھا گیا اور جب رہائی پائی، تو ایک ماہ کے لیے ضلع سے خارج کردیا گیا۔
اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ حضرت علامہ کا مسجد میں داخلہ بند کردیا گیا۔ مسجد کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالی جبکہ سابقہ حکومت نقشہ منظور کرچکی تھی۔ انجمن اتحاد المسلمین کو ختم کرکے اس کے کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔
الحمدللہ! ان تمام تکالیف و تشدد کے باوجود آپ کے پائے استقلال میں کوئی فرق نہ پڑا، بلکہ آپ کے مشن میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوئی۔
حضرت مولانا عزیز الرحمان کو حضرت خواجہ نظام الدین رحمہ اللہ تونسہ شریف سے بیعت کا شرف حاصل ہے۔[۱]
[۱۔ یہ تمام کوائف مورخہ ۸؍اگست ۱۹۷۷ء کو حضرت علامہ مولانا عزیز الرحمان رضوی کے لاہور تشریف لانے پر جامعہ نظامیہ رضویہ کے دفتر میں حاصل کیے گئے۔ (مرتب)]
(تعارف علماءِ اہلسنت)