اپنے وقت کے کاملین میں سے تھے حضرت شیخ تبک سے تربیت روحانی ملی تھی معارج الولایت کے مولّف لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت بایزید مجلس سماع میں موجود تھے طبیعت پر سخاوت کا غلبہ آیا فرمانے لگے ہے کوئی ہے جسے میں خدا رسیدہ بنادوں مجلس میں شورہ قبیلے کے تین پٹھان بیٹھے تھے ایک شیر خان امجوزی دوسرا پایندہ امجودی تیسرا شیخ صدر الدین و توزی تھا تینوں اٹھے حضرت شیخ سے معانقہ کیا اُسی وقت تینوں خدا رسیدہ بن گئے اس کے بعد حضرت شیخ جب بھی مجلس سماع میں بیٹھتے تو وجد کی حالت میں یہی کلمہ زبان پر لاتے اور اس طرح سینکڑوں لوگ خدا رسیدہ ہوگئے ایک دن مجلس میں ایسا بیگانہ آدمی موجود تھا جو ان مقامات کو نہ جانتا تھا اُٹھا اور شیخ سے معانقہ کرنا چاہا تو دیکھا اُس کے اور شیخ کے درمیان ایک بڑی صندوق ہے جس میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں تو فوراً پیچھے ہٹ گیا۔
حضرتِ شاہ بایزید کی اہلیہ فرماتی ہیں کہ میں صبح کی نماز کے بعد شیخ کو باہر مصلیٰ پر بیٹھے دیکھا کبھی تو وہ ایک ضعیف بوڑھے کی طرح نظر آتے اور کبھی نوجوان خوبصورت دکھائی دیتے کبھی میں دیکھتی کہ وہ ایک چھوٹے بچے کی شکل میں بیٹھے ہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتا کہ بہت بڑا شیر بیٹھا ہے جب میں نے پہلی مرتبہ انہیں شیر کی شکل میں دیکھا تو میں ڈرگئی خوف و ہراس کی وجہ سے کانپنے لگی آپ فوراً اصلی شکل میں آگئے اور کہنے لگے ڈرو نہیں اللہ کے شیروں کے گھر جنگل کے شیر نہیں آسکتے۔
ایک بار شیخ سفر کرتے کرتے آگرہ شہر میں پہنچے انہوں نے دیکھا کہ کسی شخص کی کھوپڑی راستے میں پڑی ہوئی ہے آپ نے چاہا کہ اُس سے بات کریں آپ نے اُسے غور سے دیکھا تو اُس نے اپنے سارے حالات بتادیئے حضرت شیخ نے اُس کے لیے فاتحہ پڑھی اور دعائے مغفرت کرکے آگے چلے۔
شیخ خان ام جوزی جو آپ کا فیض یافتہ تھا راستے میں جارہا تھا کہ ایک مست ہاتھی دوڑاتا ہوا آرہا تھا ہاتھی والے نے دور سے کہا کہ بابا ہٹ جاؤ ہاتھی مست ہے کہنے لگے مست کو مست سے کیا کام جب ہاتھی آپ کے نزدیک پہنچا تو سر جھکا دیا آپ نے اُس کے سر کو اٹھا کر اونچا کیا اور فرمایا اگر میں اِس کے سر کو سہارا نہ دیتا تو یہ قیامت تک اسی طرح پڑا رہتا ایک دن شیر خان مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک بوڑھی عورت آئی اور آکر کہنے لگی میرا ایک عزیز سخت بیمار ہے اور مرنے کے قریب ہے آپ اُس کی شفا کے لیے دعا فرمائیں آپ نے چند لمحے سر جھکایا اور پھر بوڑھی عورت کو کہنے لگے اس کی عمر تو ختم ہوگئی ہے میں نے بڑی تلاش کی لیکن اُس کی حیاتی نہ پاسکا اب اِس کے بغیر چارہ نہیں کہ میں اپنی عمر اُسے دے دوں یہ کہہ کر آپ نے اپنی چادر زمین پر بچھائی اُس پر لپٹ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے جان اللہ کے حوالے کردی اُسی دن سے اُس بوڑھی عورت کا عزیز بیٹا شفا یاب ہوگیا۔
شیخ صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ المشہور شیخ صدو بھی آپ کے دوسرے خلیفہ تھے وہ بھی مردِ کامل تھے لیکن دیوانوں کی طرح بازاروں میں گھومتے پھرتے تھے شہر کے بچے ان کے پیچھے شور مچاتے اور کہتے بابا روٹی دے وہ اپنی کرامت سے بغل سے روٹیاں نکالتے جاتے اور بچوں کو دیتے جاتے ایک دن اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں سخت بارش شروع ہوگئی کہیں پناہ کی جگہ نہ تھی فرمانے لگے فکر نہ کرو بارش تم پر نہیں برسے گی ایسا ہی ہوا چاروں طرف بارش برستی رہی لیکن ان پر ایک قطرہ بھی نہ گرا۔
شیخ پائیندہ توزی آپ کے تیسرے خلیفہ تھے وہ بھی وقت کے عظیم الشان ولی اللہ تھے جو شخص آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی پی لیتا وہ ولی اللہ ہوجاتا آخری عمر میں اپنے بھائیوں سے لڑ جھگڑ کر قصور کو چھوڑا اور موضع خورحہ میں چلے گئے باقی عمر وہیں رہے جہاں آپ کو بڑی مقبولیت ملی۔
حضرت شیخ بابر یزید ۱۰۳۵ ہجری میں فوت ہوئے تھے۔
رفت از دنیا چو در خلد بریں
عالم اسرار عامل بایزید
اہل حق فیاض گو تاریخ او
نیز فرما شیخ کامل بایزید
۱۰۳۵ھ