حضرت بلال مخدوم
ف۔۔۔۔۔۔۔۔ ۹۳۱ھ
مخدوم بلال بن حسن بن ادریس سموں علوم ظاہری و باطنی پر کامل ستگاہ تھی، صاحب کرامت تھے، آپ ٹھٹھہ کے رہنے والے تھے، پھر حکومت کے بجائے درویشی اختیار کرلی اور باغبان (تلتی) کو مسکن بنالیا۔
مخدوم بلال علوم ظاہری میں بڑے باکمال تھے اور دینی علوم میں انھیں بڑی دسترس حاصل تھی اس لیے لوگ ان کے تبحر علمی سے استفادہ کیا کرتے تھے۔
صاحب تحفۃ الکرام میر علی شیر قانع ٹھٹھوی نے لکھا ہے:
‘‘ازجلہ عارفان ، واصل بحق درعلم ظاہر شانی عظیم داشتہ’’
میر معصوم بھکری نے اپنی مشہور کتاب تاریخ معصومی میں لکھا:
‘‘دروادی تقوی وزہد شبیہ و نظیر نداشتہ ، دار علم حدیث و تفسیر مہارت تامہ داشتہ و صاحب مقامات ارجمند بود’’
بچپن ہی سے آپ کو عبادت کا ذوق و شوق تھا۔ ہمیشہ تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے۔تذکرہ نگاروں کا بیان ہےکہ ساری عمر اپ نماز روزے میں مصروف رہے۔ مجاہدوں کی یہ کیفیت تھی کہ رات کو آپ پانی سے بھرے ہوئے ایک بڑے طشت میں بیٹھ کر ذکر و شغل کرتے ۔ ذکرو شغل کی وجہ سے پانی میں ایک بڑے طشت میں بیٹھ کر ذکر و شغل کرتے ۔ زکر و شغل کی وجہ سے پانی میں ایک جوش پیدا ہوجاتا اور پانی چکی کی طرح گھومنے لگتا ۔ اور پانی میں یہ جوش اس وقت تک باقی رہتا تھا تاو قت یکہ صبح کو پانی دریامیں نہ پھینک دیا جاتا ۔ یعنی یاد الہٰی سے آپ کو باکمال اشتیاق تھا۔
زہد، عبادت اور ریاضت کے باوجود آپ خاص و عام کی اصلاح و تربیت سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ مذہبی اور روحانی نقطہ نظر سے آپ لوگوں کو آداب زندگی سے آگاہ کرتے ۔ اور دینی تعلیمات کی طرف آپ کی خاص توجہ تھی ۔ عبادت و ریاضت کےبعد آپ کو جو کچھ وقت ملتا، پندو نصائح میں صرف کرتے ۔ گویا کہ اپنے پاس آنے جانے والوں کی اخلاقی و معاشرتی حالت سنوار نے کی کوشش کرتے رہے۔ علاہ ازیں اپ گزشتہ بزرگوں سے غیر معمولی عقیدت رکھتے اور ان کے مزار حاضری و زیارت کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے، آپ کی زندگی کا بیش تر وقت خدمت خلق ، وعظ و نصیحت اور قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت میں گذرا۔
مخدوم بلال عارفانہ کلام بھی کہتے تھے۔ ان کی ایک رباعی صاحب مقالات الشعراء نے نقل کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تصوف کے دقیق نکات کو انتہائی دلاویزی و دلکشی کے ساتھ پیش کرتے ہیں فرماتے :
درراہ خدا زسر تابقدم باید ساخت
سرمایہ اختیار خود می باید باخت
کفر است بخود نمائی بردن بجہاں
ازخویش بروں شدہ سویش بباید تاخت
آپ طریقت میں کبروی سلسلہ رکھتے تھے،جو شیخ نجم الدین کبری خوارزمی سے چلا ہے، شجرہ یہ ہے۔مخدوم بلال، شیخ دوست علی سیانی، شمس الدین علی ہمدانی، (۷۸۶ھ)شمس الدین مزدقانی(۷۶۶ھ)علاؤ الدین سمنانی (۷۳۶ھ) عبدالرحمٰن اسفرائنی (۷۹۵ھ) احمد جوزقانی، علی لالا غزنوی (۶۴۲ھ) محمد الدین بغدادی (۶۷۱ھ) نجم الدین احمد بن عمر کبری خوارزمی، پھر یہ سلسلہ آگے چل کر سید الطائفہ جنید بغدادی سے جاملتا ہے، مرزا شاہ حسن بیگ ارغوان کے حکم سے سیاسی وجوہ کی بناء پر آپ کو شہید کردیاگیا۔
۲۰ صفر المظفر ۹۳۱ھ کو شہادت پائی بستی باغبان میں مدفون ہیں۔ سید حیدر علی سنائی ،قاضی نوید سنائی ، مخدوم رکن الدین ٹھٹھوی اور مخدوم ساھر لنجاد آپ کے مشاھیر خلفاء میں سے ہیں۔
(حدیقۃ الاولیاءص ۸۴، تذکرہ مشاہیر سندھ میں تاریخ شہادت یکم محرم ۹۳۵ھ یا ۹۲۹ھ )
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )