حضرت داؤد بلخی علیہ الرحمۃ
خراسان کے متقدمین مشائخ میں ہیں۔ابراھیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ میں کوفہ اور مکہ کے درمیان ایک شخص کا ساتھی ہو اجب وہ مغرب کی نماز پڑھتا تو اسکے بعد دو رکعت ہلکی پڑھتا اور کچھ چپکے پڑھتا ۔اس کے دائیں طرف سے ایک پیالہ ثری ۔۔۔۔
حضرت داؤد بلخی علیہ الرحمۃ
خراسان کے متقدمین مشائخ میں ہیں۔ابراھیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ میں کوفہ اور مکہ کے درمیان ایک شخص کا ساتھی ہو اجب وہ مغرب کی نماز پڑھتا تو اسکے بعد دو رکعت ہلکی پڑھتا اور کچھ چپکے پڑھتا ۔اس کے دائیں طرف سے ایک پیالہ ثرید کا اور ایک کوزہ پانی کا ظاہر ہو جاتا اور خود بھی کھاتا اور مجھ کو بھی دیتا ۔اس قصہ کو میں نے ایک شیخ سے جو کہ صاحب کرامت تھے ذکر کیا ۔اسنے کہا کہ بیٹا وہ میرا بھائی داؤد ہے اور اسکا بہت سا حال بیان کیا ۔جتنے لوگ اس مجلس میں تھے سب رونے لگے پھر کہا کہ وہ بلخ کے دیہات سے ایک گاؤں کا رہنے والا ہے ۔وہ گاؤں بہ نسبت اور دیہات کے فخر رکھتا ہے کہ وہیں کے رہنے والے ہیں مجھ سے ککہا کہ تم کو اس نے کیا سکھایا۔میں نے کہا کہ اسم اعظم کہا کہ وہ کیا ہے میں کہا کہ وہ میرے دل میں اس سے زیادہ بزرگ ہے کہ میں انکو زبان پر لاؤں۔
(نفحاتُ الاُنس)