شاہ دولہ دریائی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ
چھوٹی عمر میں ہی آپ کے والدین انتقال کرگئے تو بعض بد معاش لوگوں نے آپ کو ایک ہندو کے ہاتھ بیج دیاجو آپ سے بہت کام لیتا تھا مگر بعد ازاں آپ کی خدمت سے بہت متاثر ہوا اور آپ کو آزاد کردیا سلسلہ نسب سلطان بہلو ل لودھی سے ملتا ہے۔
سلسلہ بیعت:
حضرت شاہ دولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ مرید سید سرمست رحمتہ اللہ علیہ مرید شاہ مونگا رحمتہ اللہ علیہ مرید شاہ کبیر رحمتہ اللہ علیہ مرید شیخ شہر اللہ مرید شیخ یوسف رحمتہ اللہ علیہ مرید پیر برہان الدین رحمتہ اللہ علیہ مرید شیخ صدرالدین رحمتہ اللہ علیہ مرید شیخ بد ر الدین رحمتہ اللہ علیہ مرید اسماعیل قریشی رحمتہ اللہ علیہ مرید شاہ صد ر الدین رحمتہ اللہ علیہ مرید رامن قتال سہروردی رحمتہ اللہ علیہ مرید شیخ رکن الدین ابو الفتح ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ مرید شیخ صدر الدین عارف سہروردی رحمتہ اللہ علیہ مرید شیخ بہا ء الدین زکریا ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ،سلسلہ عالیہ سہر وردیہ کے علاوہ مشائخ چشتیہ سے بھی فیوض و برکات حاصل کیں۔
سیا لکوٹ میں آمد:
جب آپ نے ذرا ہوش سنبھالا تو آپ مرشد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور سیا لکوٹ پہنچے،وہاں آپ سید سیداں سرمست سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے، کافی عرصہ تک اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں رہے، جب ان کا وقت انتقال قریب آیا تو انہوں نے اپنے مرید کو بلایا اس کا نام بھی دولہ تھا چونکہ وہ مو جود نہ تھا آپ فورا حاضر خدمت ہوئے شیخ نے فرمایا کہ تیری ضرورت نہیں آپ واپس آگئے شیخ نے دوبارہ دولہ کو آواز دی چونکہ وہ اس وقت بھی موجود نہ تھا شیخ دولہ پھر حاضر ہوگئے، شیخ نے دیکھ کر فرمایا،کہ ہر کرامولا بدہد شاہ دولہ گردو، اور تمام فیو ضات و برکات سے نواز دیا اور پھر انتقال کرگئے،اس کے بعد آپ پر جذب و سکر کی حالت ایک عرصہ تک طاری رہی اور بیا با نوں اور جنگلوں میں پھرنے لگے، آپ کے مرشد شاہ سرمست کا مزار سیا لکوٹ میں ہے، سید السا دات خان حضرت شاہ دولہ شاہ کے پیر بھائی تھے جن سے ایک نیا سلسلہ طریقت سدو شاہی شروع ہوا۔
لاہور میں آمد:
کرامت نامہ شاہ دولہ،مصنف مشتاق رام گجراتی مطبوعہ ۱۱۳۲ھ مطابق ۱۷۱۹ءجس کا قلمی نسخہ سید شریف احمد شر افت نو شاہی بمقا م ساہن پال ضلع گجرات کے پاس موجود ہے میں تحریر ہے کہ آپ لاہور تشریف لائے تھے اور قیام لاہور کے دوران اورنگ زیب عالمگیر سے ملاقات کی تھی۔
رفا ہ عامہ کے کام:
اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے آپ کو ہرروز اپنے خزانہ غیب سے بہت کچھ عنایت فرماتا کچھ آپ غر با اور مساکین میں تقسیم فرما دیتے اور کچھ سے آپ نے اکثر جگہ عمارات از قسم چاہ باؤلی مسافر خانے، پل اور مساجد و سرائے تعمیر کروائیں جن سے خلقت خدا کو بہت فائدہ پہنچا،تمام عمر شادی نہیں کی،مجرد رہے، سماع بکثرت سنتے تھے اکثر وجد میں رہتے،بہت سے لوگ اولاد کےلیئے حاضر ہوتے تو آپ ان سے کہتے کہ پہلا لڑکا ہماری نظر کرنا ہوگا اس طرح بے شمار لوگوں کے اولاد ہوئی اور جو پہلے بچے ہوتے وہ آپ کے دربار عالی پر لائے جاتے وہ کو تاہ سرگنگ اور مسلوب الحواس ہوتے تھے، اس طرح سینکڑوں لڑکے جو،دولہ شاہی چوہے، کہلاتے ہیں آپ کی خانقاہ میں رہتے اور آپ ان کی خو راک وغیرہ کا اہتمام فرماتے، آپ مستجاب الدعوات بھی تھے جو زبان سے نکلتا پورا ہوجاتا۔
مصنف۔معارج الولایت،حسن ابدال جاتے ہوئے گجرات میں آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر فیوض و نواز شات سے سر فراز ہوئے تھے،اس وقت شاہ دولہ مراقبہ میں تھے اور قوال اولیائے چشت کی مدح میں گا رہے تھے۔
ایک دفعہ شاہجہان کے پاس لوگوں نے آپ کی شکایت کی اور آپ کی ایذ ارسانی کے درپے ہوئے مگر ساہجہان حقیقت حال دیکھ کر آپ کا گر ویدہ ہوگیا اور اس نے حاسد وں کے پیش کردہ متصر کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔
وفات:
آنجنا ب کی ۱۰۷۵ھ مطابق ۱۶۶۴ء بہ زمانہ محی الدین اورنگ زیب عالمگیر گجرات میں ہوئی اور وہیں مدفون ہوئے، تاریخ وصال اس طرح ہے،جنت،سید شہہ دولہ،سن ۱۰۷۵ھ ۔
شاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ کا لاہور میں پہلی مرتبہ وردو:
حضرت شاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ کا جہا نگیر بادشاہ کے پاس جانا:
ایک مرتبہ جہانگیر بادشاہ نے سنا کہ سیالکوٹ میں ایک پیر شاہ دولہ نامی رہتے ہیں اور وہ کیمیا گیر ہیں یا ان کے پاس پارس ہے وہ عمارات عالی بنایا کرتا ہے،بادشاہ نے مغلان گرز بردار کو بھیجا کہ اس فقیر کو حاضر کریں چنا نچہ آپ شاہی حکم کے مطابق چند خا دموں کے ساتھ لے کر شا ہد رہ پہنچے،حضرت ہماں حکم پذیر فتہ با چند ے از خادما ں فر دا نے آں روانہ شد ند دور شا ہد رہ رسید ند ،
کرامت نامہ صفحہ ۶۰
دوسرے روز لاہور میں بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا اور ملکہ نور جہاں پردے میں تھی اس کو کہا دیکھو اس فقیر کے چہرہ سے نو رانیت ظاہر ہے گویا عین صورت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے ملکہ نے کہا کہ واقعی فقیر کامل معلوم ہوتا ہے۔کرامت نامہ قلمی صفحہ ۶۰ میں ہے
بادشاہ بر تخت نشتہ دو پیالہ شراب نو شیدہ بود بمجرو حصول دیدار پر انوار بہ نور جہاں بیگم جانی کہ در پردہ چاک نزدیک نشتہ بود فرمو د کہ ببین چہ قسم جبہہ ایں فقیر پر نورو روشن بہ تجلی ظہور بابرکت ست گو یا عین صورت علی ست بیگم عرض نمود کہ جہاں پناہ فقیر کامل بنظر مے آید۔
اقتبا س:
از کرامت نامہ شاہ دولہ مصنفہ مشتاق رام گجراتی مخطو طہ مکتو بہ قلم سید شرافت نوشاہی ساہن پالوی،موجود کتب خانہ سید شرافت نو شاہی بمقام ساہن پال شریف تحصیل پھا لیہ ضلع گجرات۔
شاہ دولہ کا لاہو ر میں دوسری مرتبہ ورود:
ایک مرتبہ شاہ نگزیب عالمگیر نے اکثر درویشا ن صاحب حال کو لاہور میں بلوایا چنا نچہ ابراہیم خان کو حکم دیاکہ شاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ کو بھی حاضر کرو،نواب نے رائے بند رابن دھری کے نام حکم نامہ بھیجا،وہ آپ کے اخلا ص مند وں سے تھا، جرات نہ کرسکا اس نے ہر کرن کو توال اور جوگی باو فروش کو اس کام پر مامور کیا، جب وہ دونوں خدمت میں پہنچے تو اس وقت شاہ دولہ رحمتہ اللہ علیہ تعمیر کر ا رہے تھے ، انہوں نے ابھی کوئی بات نہ کہی تھی کہ آپ نے از راہ کشف آگاہ ہوکر فرمایا کہ آؤ اور بادشاہ کا جو حکم ہے بلا خوف مجھے پہنچا ؤ،چنا نچہ انہوں نے حکم نامہ سامنے رکھ دیا، منشی گلونے پڑھ کر سنایا تو آپ گجرات سے روانہ ہوکر رات کو دریائے چناب کے شمالی کنارہ پر موضع کلیاں میں رات رہے، دوسرے روز کشتی پر سے گذ ر کر منزل شاہد رہ پہنچے،بعد ہ درشاہد رہ تشریف بر دبدکرامت نامہ صفحہ۶۹
وہاں زائرین کا ہجوم ہوگیا تو آپ نے باغ مقبرہ جہانگیر میں ڈیرہ ڈال دیا ،درباغ مقبرہ جہانگیر بادشاہ داخل شدندکرامت نامہ صفحہ ۷۰ دوسرے روز دریائے راوی سے کشتی پر سوار ہوکر لاہور آئے،بر زورق سوار شدہ دریا عبور فر مو دندکرامت نامہ صفحہ ۷۰ لاہور پہنچ کر بادشاہ سے ملاقات کی اور کھا نا ایک ساتھ مل کر کھایا اور اس کے حق میں دعائے خیر مانگ کر رخصت ہوئے۔
حضرت دعائے دولت ابد منزلت کردہ بر خاستد و صبح آں از لاہور شہر کوچ نمودہ بیک دو روز در شہر گنج رسیدہ بو دند۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)