حضرت فرید الدین مسعود رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا نسب دس واسطوں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جاملتا ہے، نسب یوں ہے مسعود ابن سلمان ابن قاضی شعیب ابن احمد ابن یوسف ابن شہاب الدین ابن فرخ شاہ آپ کے تیسرے دادا یوسف عہد چنگیری میں ہندوستان آئے تھے، اور قصبہ کو توال میں قیام فرمایاتھا، یہیں خواجہ کی پیدائش ہوئی، ابتدائی رسمی علوم کی تحصیل کے بعد جوانی میں ملتان آ کے ایک مسجد میں قیام فرمایا، اسی اثناء میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی اوشی رحمہ اللہ سمر قند کی سیاحت کے بعد دہلی جاتے ہوئے ملتان سے گذرے اور اتفاقاً اسی مسجد میں قیام کیا ، یہاں آپ کو خواجہ قطب الدین کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور ان سے کسب فیض کیا، بعد میں دہلی پہنچ کر مزید کسب فیض کیا، نیز خرقہ خلافت حاصل کیا، آپ نے حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہسے بھی کسب فیض کیا تھا۔
آپ طبعاً گوشہ نشین اور عزلت پسند تھے، قریہ قریہ، بستی بستی، پھرتے رہتے تھے اس دوسر میں اجودھن جو اب پاک پٹن کہلاتا ہے منکرین اولیاء اور ظاہر بینوں کا مرکز تھا، حضرت خواجہ نے اس کو اپنا مسکن بنالیا، اللہ والوں کا ہمیشہ یہی شیوہ رہا ہے کہ جو زمین سے زائد بنجر اور سنگلاخ ہوتی ہےاس کی آبیاری اور آباد کاری کی طرف توجہ فرماتے ہیں، چناں چہ حضرت موسیٰ علیہ السلامنے فراغنہ کی سرزمین مصر کو، لوط علیہ السلامنے فاسقین کےمرکز سدوم کو ، اور حضور اکرم ﷺ نے سر زمین مکہ کو دعوت حق کے لیے منتخب فرمایا تھا، جب آپ شہر میں پہنچے تو توقع کے عین مطابق کسی نے بات تک نہ پوچھی بالاخر آپ شہر کے باہر ایک درخت کے نیچے فروکش ہوئے، ریاضت اور مجاہدات میں آپ بے مثال تھے، صائم الدھر، گدڑی پوش اور پیکر قناعت تھے، صرف افطار کے وقت شکر کے چند دانے پانی میں بھگو کر پی لیتے، آپ کا لقب گنج شکر کس طرح مشہور ہوا، اس میں کئی روایات ہیں مشہور یہی ہے کہ شکر کا ایک سودا گر شکر کی بوریاں لاد کر کہیں لے جارہا تھا خواجہ نے اس سے کچھ شکر طلب کی اس نے کہا کہ شکر نہیں ہے نمک ہے آپ نے فرمایا کہ اب نمک ہی ہوگا، اب سودا گر منزل مقصود پر جاکر دیکھا تو سب بوریوں میں نمک ہی نمک تھا ، وہ خدمت میں حاضر ہوا، معذرت ک اور گذارشکی حضور دعا فرمائیں کہ بوریاں پھر شکر میں تبدیل ہوجائیں آپ نے فرمایا جاؤ شکر ہی ہوگی، اب جوجاکر دیکھا تو شکر ہی تھی، اس دن سے آپ گنج شکر کے لقب سے مشہور ہوگئے، شیخ کے بعض ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاء کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں ان میں ایک جگہ فرماتے ہیں میں نے سات سو مشائخ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کیا سب نے ایک ہی جواب دیا، دریافت کیا سب سے عقلمند انسان کون ہے ؟ جواب ملا، گناہ کا تارک، دریافت کیا سب سے چالاک کون ہے؟ فرمایا جو کسی چیز سے دھوکہ میں نہ آئے،پوچھا سب سے زائد فقیر کون ہے ؟ جواب ملا ، تارک قناعت آپ کی وفات محرم کی پانچ تاریخ کو سن چھ سو چونسٹھ ہجری میں ہوئی اس وقت آپ کی عمر ۹۵ سال تھی۔
(گلزار ابرار ص ۴۸، ۴۹ واخبار الاخیار ص ۵۹)
مرزا خان خاناں محمد بیرم خان جیسے بلند مرتبہ شخص نے آپ کے حضور ان اشعار سے اظہار عقیدت کیا ہے۔
کان نمک و گنج شکر شیخ فرید
شیریں ترازیں کرامتی کس نہ شنید
کان نمک جہاں شکر گنج بحرو بر
آں کز شکر نمک کند واز نمک شکر
کزگنج شکر کان نمک کرد یدید
درکان نمک کرد نظر گشت شکر
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )