حضرت حافظ علامہ حاجی حامد
ف۔۔۱۳۱۵ھ
حضرت علامہ حافظ حاجی حامد بن محمد ہاشم بن محمود میمن قوم سےمتعلق تھے قدیمی ٹکھڑ میں آپ کا جنم ہوا تھا ،ابھی آپ تین سال کے بھی نہ ہوئے تھے کہ چیچک کی منحوس بیماری میں مبتلا ہوگئے اور اسی مرض میں آپ نابیناہوگئے، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو جودل کی روشنی عطا فرمائی تھی وہ آپ کے لیے مشعل راہ بنی صغر سنی میں ہی قرآن حکیم یا د کرلیا تھا اور تمام علوم و فنون علامہ مولانامحمد متعلوی اور مولانا ولی محمد درس ملا کا تیار والے کے پاس پڑھے اور تکمیل کی۔ حضرت حافظ صاحب اپنے وقت کے جید عالم بے نظیر شاعر ، ولی کامل اور اہل بصیرت تھے۔ اگر چہ آپ اعمی تھے لیکن دوسرے نابیناؤں کی طرح بھیک مانگنا ذلت تصور کرتے تھے۔
آپ نے کپڑے کی دکان کھولی ہوئی تھی ، جس پرآپ خود بیٹھا کرتے تھے ۔ سچے اور جھوٹے پیسوں کی خود تمیز کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ کی دکان سے کپڑا چوری ہوگیا۔ آپ نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی لیکن چوری کا کہیں بھی سراغ نہ مل سکا، کافی عرصہ کے بعد ایک عورت ایک کپڑے کا ٹکڑا بطور نمونہ لیکر حافظ صاحب کی دکان پر آئی اور کہنے لگی کہ حافظ صاحب: اس نمونے کا کپڑا دیجیے۔ حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ نے ایک دم کپڑا پہچان لیا اور عورت کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس کے زدو کوب کے بعد عورتنے چوروں کے نام بتادیئے۔ چوروں کو پکڑ کر کپڑوں کے تھان دوسرے تھانوں کے ساتھ مختلط کر کے کہا کہ حافظ صاحب! اپنے کپڑے ان کپڑوں میں سے نکال لیجیے ۔ حضرت حافظ صاحب نے بغیر کسی اٹک کے فوراً اپنے کپڑ ے نکال لیے اور بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بخوف طوالت نظر انداز کیے جاتے ہیں۔
حضرت حافظ حامد علیہ الرحمتہ بڑے گو انسان تھے آخر میں آپ سادات ٹھکھڑ سے کسی بات پر ناراض ہو کر ‘‘نور آئی شریف’’ ضلع حیدرآباد میں سکونت پذیر ہوگئے۔ حضرت حافظ صاحب کی بڑی کرامت یہ ہےکہ آپ نے اپنی وفات کی خبر پہلے سے ہی دے دی تھی چناں چہ آپ اپنی ایک نظم میں اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
عمرع آہے نہ ولیجھو وطن
مئی ماذیین کیرڈیندم کفن
گندیم شال گندھ میں دھ راڑیوں دفن
پکھیں پارکر منھنجا پوندا پتھر
یعنی اے عمر اب میرا وطن قریب نہیں رہا۔ اگر میں تیرے محلات میں مر گئی تو مجھے کون کفن دیگا۔ شاید مجھے چرواہے کسی کنارے دفن کریں گے۔ اور میزی تعزیت گاہ تھر پار کرسے بھی آگے بنے گی۔
چنانچہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق آپ نے ۱۳۱۵ھ میں مارواڑ کے علاقہ کے ‘‘جاریلی’’ گاؤں میں سفر کرتے ہوئے رحلت فرمائی اور چرواہوں نے آپ کو وہیں سپرد کیا۔
آپ کی تاریخ وفات
‘‘آہ غریب الوطن’’ سے نکلتی ہے۔
(تذکرہ شعراء ٹھکھڑ ص ۲۵۰سندھی ادبی بورڈ کراچی، حیدرآباد)
آپ کے خطبات سندھی زبان میں خطبات حامد کے نام سے پورے سندھ کی تقریباً تمام مساجد میں جمعوں میں پڑھے جاتے ہیں۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )