حضرت استاذ العلماء علامہ مولانا حافظ محمد عالم سیالکوٹ علیہ الرحمۃ
استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا حافظ محمد عالم بن الحاج مولانا شاہ محمد ۱۳۴۳ھ / ۱۹۲۴ء میں موضع رانجن تحصیل و ضلع جموں (مقبوضہ کشمیر) کے مقام پر پیدا ہوئے۔
علومِ اسلامیہ کا حصول:
آپ نے قرآن پاک اپنے پھوپھا حافظ احمد دین محلّہ بجلی گھر سیالکوٹ سے حفظ کی۔ ۱۹۳۸ء میں حضرت مولانا محمد نبی بخش حلوائی کے درس (لاہور) میں داخل ہوئے۔ ابتدائی کتب حضرت استاذ العلماء مولانا مہر الدّین جماعتی (حال شیخ الحدیث دار العلوم حزب الاحناف لاہور سے پڑھیں اور پھر دار العلوم حزب الاحناف میں داخلہ لیا۔ ۱۹۴۵ء میں تکمیل علومِ نقلیہ و عقلیہ اور دورۂ حدیث کے بعد اسی دار العلوم (حزب الاحناف) سے سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔ آپ کو مفتی اعظم حضرت علامہ ابو البرکات سیّد احمد رحمہ اللہ سے شرفِ تلمذّ حاصل ہے۔
تدریس و خطابت:
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ذہن راسخ کے ساتھ ساتھ محنت کا جذبہ وافر عطا فرمایا ہے۔ فراغت کے بعد آپ نے لال حویلی کی مسجد اندرون اکبری گیٹ لاہور میں امامت کے فرائض سر انجام دینے شروع کیے اور مولانا سلطان محمود کی وفات کے بعد جامع مسجد شاہ محمد غوث رحمہ اللہ میں خطیب مقرر ہوئے۔ علاوہ ازیں مسلم ماڈل ہائی سکول میں بھی تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔
۱۹۵۳ء میں جب حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمی نے چوک دالگراں لاہور میں دار العلوم نعیمیہ کی بنیاد رکھی، تو حضرت علامہ مولانا محمد عالم ان چند اوّلیں مدّرسین میں سے تھے جنہوں نے اعزازی طور پر پڑھانا شروع کیا۔
۱۹۵۷ء میں آپ نے سیالکوٹ دو دروازہ کی جامع مسجد میں جامعہ حنفیہ کے نام سے دار العلوم جاری فرمایا۔ مولانا محمد یوسف کے تعاون سے مسجد مولانا عبد الحکیم میں جامعہ عبد الحکیم قائم کیا اور علم دین کی اشاعت میں مصروف ہوگئے آپ کی علمی شہرت نے طلباء کو جوق در جوق داخلہ لینے پر آمادہ کیا اور سینکڑوں تشنگان سیراب ہوکر نکلے۔ آج بھی آپ دارالعلوم جامعہ حنفیہ میں مسندِ تدریس پر فائز ہیں اور درسِ حدیث دیتے ہیں۔
دینی و ملّی خدمات:
حضرت مولانا محمد عالم نے ۱۹۵۳ء کی تحریکِ ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیا چنانچہ مارشل لاء حکام نے آپ کو گرفتار کر کے فوجی عدالت میں پیش کیا۔ کچھ عرصہ لاہور قلعہ میں زیرِ حراست رہے اور تحریک کے خاتمے پر رہا کر دیے گئے۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں آپ نے جمعیت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ آپ جمعیت علماء پاکستان کے ضلعی صدر ہیں۔
۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختم نبوت میں بھی آپ نے نمایاں کار نامے سر انجام دیے اور پچیس مرزائی آپ کے ہاتھ پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔[۱]
[۱۔ روز نامہ نوائے وقت لاہور و روز نامہ مشرق لاہور ۱۹۷۴ء بحوالہ ضیائے حرم ختمِ نبوت نمبر دسمبر ۱۹۷۴ء ص ۱۲۱۔]
آپ محکمۂ اوقاف سے منسلک ہوکر ڈسٹرکٹ خطابت کے عہدے پر فائز ہوئے اور پھر تحریک نظامِ مصطفےٰ پر اس خطابت کو قربان کردیا۔[۱]
[۱۔ پیر زادہ علامہ محمد اقبال فاروقی، تذکرہ اکابر اہلِ سنّت لاہور، ص ۳۴۸، ۳۴۹۔]
۱۹۷۷ء میں جب تحریکِ نظام مصطفےٰ شروع ہوئی، تو آپ کو نام نہاد بم کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔ رہا ہوتے ہی آپ نے جمعۃ المبارک کی نماز کے بعد ایک عظیم الشان جلوس کی قیادت کی۔ اس جلوس پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس وقت کی حکومت نے فائرنگ کرائی بہت سے مسلمان شہید ہوئے اور مخالفین کی جانب سے ببانگِ دہل یہ اعلان کیا گیا کہ مولانا محمد عالم اور مفتی محمد مختار احمد بچ کر نہ جائیں، چنانچہ آپ کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا، لیکن آپ نے نظامِ مصطفےٰ کی خاطر ان تمام تکالیف کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔[۱]
[۱۔ یہ تمام کاروائی ملکی اخبارات میں آچکی ہے اور اس واقعہ کے بعد سیالکوٹ میں کرفیو لگا دیا گیا تھا (مرتب)]
آپ کو عوام و خواص میں بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یکم رمضان المبارک ۱۳۹۶ھ کو راقم اور مولانا عبدالستار نظامی، جامعہ نظامیہ رضویہ کے سالانہ جلسہ کے سلسلے میں سلطان الواعظین حضرت مولانا محمد بشیر صاحب کو دعوت دینے کوٹلی لوہاراں جا رہے تھے۔ سیالکوٹ سے ہم حضرت حافظ صاحب کے شریکِ سفر ہوئے۔ کوٹلی لوہاراں میں پہنچنے کے بعد حضرت علامہ کا استقبال دیدنی تھا۔ بچے، بوڑھے، مرد اور عورتیں سبھی جگہ جگہ کھڑے ہو جاتے اور سلام عرض کرتے۔[۱]
[۱۔ مرتّب (محمد صدیق ہزاروی) کا ذاتی مشاہدہ۔]
بیعت:
پہلے پہل حضرت مولانا نبی بخش حلوائی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور آپ کے وصال کے بعد حضرت پیر فیض محمد قندھاری، مدفن تاندلیا نوالہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔[۱]
[۱۔ پیر زادہ علامہ اقبال احمد فاروقی، تذکرہ علماء اہل سنّت لاہور، ص ۳۴۸۔ ۳۴۹۔]
تلامذہ:
آپ سے کثیر التعداد تلامذہ نے اکتسابِ فیض کیا، تاہم چند مشہور تلامذہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ حضرت پیر ارشاد حسین، چوراہی۔
۲۔ خطیب اہلِ سنّت مولانا الٰہی بخش، لاہور۔
۳۔ زینت القرأ قاری غلام رسول، لاہور۔
۴۔ حافظ محمد اشرف مجددی، سیالکوٹ۔
۵۔ مولانا محمد ضیاء اللہ القادری، سیالکوٹ۔
۶۔ مولانا عطاء المصطفےٰ جمیل ایم اے (گولڈ میڈلسٹ) (صاحبزادہ سُلطان الواعظین مولانا محمد بشیر کوٹلی لوہاراں)
۷۔ صاحبزادہ غلام حیدر شاہ، برادر میر محمد شفیع۔
۸۔ مولانا عبد السّلام قدسی، کوٹلی بہرام (مصنّف علم خیر الانام)
۹۔ مولانا غلام مصطفےٰ، مفتی آزاد کشمیر۔
۱۰۔ مولانا الطاف محی الدین (جامعہ اسلامیہ) وغیر ہم،
(تعارف علماءِ اہلسنت)