- محمد شیر میاں، قطبِ پیلی بھیت حاجی شاہ جی
نام: محمد شیر میاں۔
القاب: قطبِ پیلی بھیت، شاہ جی، تاج الفقرا، غوث الاغواث۔
ولادت: 2؍ اپریل 1805ء
مقامِ ولادت: محلہ منیر خاں، پیلی بھیت، ہندوستان۔
والدین:
قطبِ پیلی بھیت حاجی شاہ جی حضرت محمد شیر میاں پیلی بھیتی حضرت محبت شیر کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ ماجد بڑے صاحبِ تقویٰ تھے، آپ کے اَجدادِ میں حضرت دیوانہ بابا اپنے زمانے کے مشہور بزرگ تھے۔
آپ کی والدۂماجدہ حضرت نور جہاں بیگم صاحبِ کرامت ولیہ تھیں، اور آپ کے مزار شریف سے متصل ہی آپ کی والدہ صاحبہ کا مزار شریف بھی ہے۔ اسی خانقاہ میں آپ کے والدِ ماجد کی بھی قبر ہے مگر اس کا نشان موجود نہیں ہے۔
مقربِ بارگاہِ رسالت مآبﷺ:
حضرت شاہ جی میاںحضورنبی ِاکرمﷺ کی بارگاہ میں بے حد مقبول تھے۔ جب آپ حج بیت اللہ شریف کے لیے حاضر ہوئے تو جانے سے لے کر آنے تک آپ اور آپ کے ساتھیوں نے کبھی کھانا نہیں پکایا بلکہ کوئی اجنبی آ کر کھانا دے جاتا تھا۔ آپ حج بیت اللہ شریف سے فارغ ہوکر مدینۂ منوّرہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو کھانا پینا ترک فرمادیا کہ کھاؤں گا تو اجابت بھی ہوگی اور اس مقدس شہر میں اجابت کروں یہ نہیں ہوسکے گا۔ چناں چہ کھانا پینا چھوڑ دیا، مگر حضرت شاہ جی میاں پان بھی کھایا کرتے تھے تو کبھی کبھی پان کی خواہش ہوتی تھی مگر نفس کشی فرماتے اور پان بھی نہ کھاتے آخر ایک دن آقائے دوجہاں ﷺ کو اپنے چہیتے پر پیار آ گیا ۔ چناں چہ ایک دن جب حضرت شاہ جی میاں روضۂ اقدس کے پاس مراقبہ میں تھے تو روضۂ پاک کی جالیوں میں سے ایک دستِ مبارک نمودار ہوا اور آپ کو پان عطا کیا گیا جسے آپ نے تناول فرمایا۔ (حیاتِ شاہ جی میاں)
کرامت:
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ پیلی بھیت شریف سے حاجیوں کا ایک قافلہ پانی کے جہاز کے ذریعے حج بیت اللہ شریف وزیارتِ مدینہ شریف کے لیے روانہ ہوا۔ دورانِ سفر طوفان نے جہاز کو گھیر لیا اور یہ حالات پیدا ہوگئے کہ جہاز کے کپتان نے اعلان کردیا کہ جہاز ڈوبنے والا ہے۔ جہاز میں حضرت شاہ جی میاں کے مریدین بھی بھاری تعداد میں موجود تھے اور انہوں نے اس مشکل گھڑی میں حضرت شاہ جی میاں کو مدد کے لیے پکارا ۔ ایک مرید کا بیان ہے کہ میں حضرت شاہ جی میاں کو یاد کرکے رورہا تھا کیوں کہ مجھے آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ اتنے میں مجھ پر کچھ غنودگی طاری ہوئی تو میں نے دیکھا کہ حضرت شاہ جی میاں تہبند باندھے ہوئے تشریف لارہے ہیں اور ہاتھ میں آپ کی لاٹھی ہے۔میں نے عرض کیا حضور ہماری مدد فرمائیے، حضرت شاہ جی میاں نے فرمایا: ’’ میرے مرید! خوف مت کر؛ اللہ بڑا نگہبان ہے۔‘‘
چناں چہ حضرت شاہ جی میاں نے زوردار آواز میں اللہٗ کا نعرہ لگایا اور جہاز کو اپنے کاندھے کا سہارا دے کر اس طوفان سے باہر کردیا اور جہاز اپنی سمت کو سیدھا چلنے لگا۔ میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ سب جہاز والے خوش ہیں۔ میں نے ماجرا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جہاز طوفان سے نکل چکا ہے۔ میں نے یہ پورا واقعہ اور اس کا وقت لکھ لیا۔
جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، اُس وقت حضرت شاہ جی میاں اپنے خادم حجام سے بال بنوا رہے تھے، اچانک اُٹھے اور اپنی لاٹھی لے کر حجرے میں تشریف لے گئے۔ کافی دیر کے بعد جب حجرے سے باہر تشریف لائے تو مریدین نے دیکھا کہ حضرت شاہ جی میاں کا تہبند پانی میں بھیگا ہوا ہے اور کاندھے پر کچھ خون کے نشانات بھی ہیں۔ مریدین میں اس بات کو لے کر کافی کشمکش ہوئی کہ حضرت شاہ جی میاں کے یہ خون کیسے نکلا ؟ کہیں کسی ظالم نے حملہ تو نہیں کردیا؟ آپ سے لوگوں نے بہت پوچھا مگر آپ نے کچھ نہ بتایا ۔لوگ خاموش تو ہوگئے مگر چاہنے والوں کو رہ رہ کر یہ بات ستا رہی تھی کہ آخر حضرت شاہ جی میاں کے خون کیسے نکلا۔
جب حجاج کا یہ قافلہ واپس آیا تو ایک حاجی صاحب نے جہاز کے طوفان میں پھنس جانے اور حضرت شاہ جی میاں کے مدد فرمانے کا پورا واقعہ لوگوں سے بیان کیا اور جب اس واقعے کا وقت اور تاریخ بتائی تو لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ تاریخ اور وقت تو وہی ہے کہ جب حضرت شاہ جی میاں حجرے میں تشریف لے گئے تھے اور جب باہر نکلے تھے تو آپ کے کاندھے پر خون کے نشانات تھے۔
اب سارا واقعہ لوگوں کی سمجھ میں آچکا تھا کہ اس دن حضرت شاہ جی میاں پر کسی نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ حضرت شاہ جی میاں نے جہاز کو جو کاندھا دے کر پار لگایا تھا، اُس سے یہ خون کے نشانات آئے تھے۔
یہ واقعہ اُن حاجی صاحب نے حضرت شاہ جی میاںکے سامنے بھی بیان کیا تو حضرت شاہ جی میاں نے فرمایا: ’’حاجی صاحب چُپ ہوجاؤ‘‘۔
کمالِ علم:
حضرت شاہ جی محمد شیر میاں پیلی بھیتی رضی اللہ تعالٰی عنہ جہاں روحانیت کا آفتاب تھے وہیں علم کا ماہتاب بھی تھے ۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے علمائے کرام جو حقیقت میں عالم بھی تھے اور عارف بھی ، وہ آپ سے اکتسابِ فیض کے لیے حاضرِ بارگاہ ہوتے تھے ۔
کچھ لوگ حضرت شاہ جی محمد شیر میاں کی بارگاہ میں آئے اور یہ پلان بناکر آئے کہ آج شاہ جی میاں کا امتحان لیں گے اور جب شاہ جی میاں امتحان میں فیل ہوجائیں گے تو ہم خوب اُن کا مذاق اُڑائیں گے۔
چناں چہ انہوں آ کر حدیث شریف کی ایک عربی عبارت پڑھی اور بولے کہ شاہ جی میاں اس آیت کا مطلب ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے ذرا سمجھادیجیے۔ حضرت شاہ جی میاں کو جلال آ گیا اور ارشاد فرمایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی تم لوگ اللہ کے پیارے رسول ﷺ کی حدیث پاک کو قرآن کی آیت کہہ رہے ہو۔
اتنا سننا تھا کہ ان لوگوں کے ہوش اُڑ گئے اور شرمندہ ہوکر واپس ہوئے۔
وہابیّت پنپ پائی نہ اس شہرِ مقدس میں
بڑا احسان پیلی بھیت پر شہ جی میاں کا ہے
اعلیٰ حضرت اور شاہ جی شیر میاں کی حق پسندی:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی حضرت علامہ محمد وصی احمد محدث سورتیکے ہمراہ ، شاہ جی محمد شیر میاں سے ملنے تشریف لے گئے ۔دیکھا کہ شاہ صاحب بے حجابانہ عورتوں سے بیعت لے رہے ہیں۔ احکامِ شرع پر کمالِ غیرت کے باعث اعلیٰ حضرت ملے بغیر واپش تشریف لائے۔ کوئی دوسرا ہوتا تو بگڑ جاتا مگر شاہ صاحب کی بے نفسی وحق پسندی کا کمال اس طرح جلوہ گر ہوا کہ شام کو اسٹیشن تک پہنچانے تشریف لائے اور صبح کے واقعے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئےفرمایا:
’’مولانا! اب آئندہ میں عورتوں کو پَسِ پردہ بٹھا کر بیعت لیا کروں گا۔‘‘
اس کے بعد اعلیٰ حضرت نے ان سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا ۔
صدرالافاضل اور شاہ جی شیر میاں:
حضور صدر الافاضل فخر الاماثل حضرت علامہ مفتی سیّد محمد نعیم الدین مرادآبادی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم تھے اور بڑی باریک نظر رکھتے تھے، کون کیا ہے اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ایسے عالمِ باکمال کو جب پیر کی ضرورت ہوئی تو انہیں حضرت شاہ جی محمد شیر میاں کا دامن نظر آیا اور آپ مرید ہونے کے لیے مرادآباد شریف سے حضرت شاہ جی محمد شیرمیاں کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔
حضرت شاہ جی میاںنے ضعیفی کے باوجود کھڑے ہوکر آپ کا استقبال فرمایا اور پُرتکلّف ناشتہ کرایا جو کہ خلافِ معمول تھا کیوں کہ حضرت شاہ جی میاں کے یہاں ناشتے میں ایک کپ چائے اور آدھی روٹی ملتی تھی۔
کچھ مریدوں کو یہ ناگوار ہوا کہ حضرت شاہ جی میاں ایک نوجوان کے لیے کھڑے ہوگئے اور پھر اسے پُر تکلّف ناشتہ بھی کرایا ۔
حضرت شاہ جی میاں نے فرمایا:
’’اے لوگو! تم اِس نوجوان کا ظاہر دیکھ رہے ہو اور میں اِس کا باطن دیکھ رہا ہوں کہ یہ اپنے وقت کا کتنا عظیم عالم ہوگا۔‘‘
اِس سے پہلے کہ صدر الافاضل یہ عرض کرتے کہ حضور میں مرید ہونے آیا ہوں، حضرت شاہ جی میاں نے فرمایا:
’’مولانا صاحب! آپ کے استاذ مولانا سیّد شاہ محمد گُل صاحب اللہ کے ولی ہیں۔ میں جب مرادآباد جاتا ہوں تو اُن سے ملاقات کرتا ہوں اور آپ جس ارادے سے آئے ہیں، آپ کا وہ حصّہ آپ کے استاذ کے پاس ہے۔‘‘
چناں چہ حضور صدر الافاضل مرادآباد شریف تشریف لائے اور اپنے استاذ عارف باللہ شیخ الکل علامہ سیّد شاہ محمد گُل صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہنا ہی چاہتے تھے کہ میں مرید ہونے آیا ہوں۔
حضور شاہ محمد گُل صاحبنے فرمایا :
’’مولانا! آپ کوشاہ جی محمد شیر میاں نے بھیجا ہے، اب تم پرسوں جمعہ کو آنا تمہارا حصّہ تمہیں مل جائے گا۔ ‘‘
چناں چہ حضور صدر الافاضل جمعہ کو حاضر ہوئے اور حضور سیّد شاہ محمد گُل صاحب نے آپ کو مرید فرمایا۔
- شہ نعیم الدین بیعت کے لیے حاضر ہوئے کیسے یہ ذی مرتبہ ہیں حضرتِ شہ جی میاں
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہاں مرید ہونے گئے تھے مگر کہنے سے پہلے حضورشاہ جی میاں نے حضور سیّد شاہ محمد گُل کا پتا بتادیا اور یہاں حضور گل میاں نے حضور صدر الافاضل کے بتانے سے پہلے سارا واقعہ سنادیا، اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ والوں کے درمیان کیسے روحانی تعلقات ہوتے ہیں ۔
نبی اکرمﷺ نےمرید کرنے کا حکم فرمایا:
تاج العرفاء غوثِ زماں علامہ سیّد شاہ محمد عبد البصیر میاں صوبۂ سرحد کے رہنے والے تھے اور زمیں دار تھے۔ جب پیرِ کامل کی تلاش ہوئی تو پیرِ کامل تلاش کرتے کرتے بریلی تک آگئے مگر کوئی ایسا نہیں ملا جو دل کو بھاجاتا۔آخر ایک دن آقائے دوجہاں رحمت ِعالمﷺ کو اپنے شہزادے کا خیال آ ہی گیا اور حضور نبیِ اکرمﷺنے خواب میں بشارت فرمائی کہ پیلی بھیت چلے جاؤ اور محمد شیر کے ہاتھ پر مرید ہوجاؤ۔ اُدھر پیلی بھیت شریف میں حضرت شاہ جی میاں کو حکم فرمایا کہ ہمارا شہزادہ آرہا ہے، اُس کو مرید کرلینا۔
چناں چہ حضرت عبد البصیر میاں حضرت شاہ جی میاں کے دربار میں حاضر ہوئے تو مرید ہونے کی درخواست پیش کی۔
حضرت شاہ جی میاں نے فرمایا :
’’مولانا صاحب! جس ذاتِ گرامی نے آپ کو یہاں بھیجا ہے، اُس نے مجھے بھی آپ کو مرید کرنے کا حکم فرمایا ہے۔‘‘
اور پھر حضرت عبد البصیر میاں کو آپ نے مرید فرما لیا۔
حضرت عبد البصیر میاں جیسے عظیم عالم کہ عربی درسی کتب پر جن کے حواشی موجود ہوں اور وہ آپ کے مرید ہیں تو پھر حضرت شاہ جی میاں کے علم کو کون سمجھ سکتا ہے۔
فخرِ ملّت اور فخرِ اولیاء شاہ جی میاں
فخرِ خواجہ فخرِ غوث و مرتضیٰ شاہ جی میاں
داد رس فریاد رس مشکل کشا شاہ جی میاں
ہیں فقیر و بے نوا کے آسرا شاہ جی میاں
وصالِ پُرملال: 5؍ ذوالحجہ 1324ھ کو آپ نے اِس دارِ فانی سے کوچ فرمایا۔
مزارِ پُر اَنوار: پیلی بھیت شریف کے محلہ شیر محمد میں آپ کا مزارِ مبارک ہے۔
ماخذ:
اس مضمون کی تیاری میں فیس بک کے مندرجۂ ذیل لنک(Link) پرموجود تحریر سے مدد لی گئی ہے:
- محمد شیر میاں، قطبِ پیلی بھیت حاجی شاہ جی
