مولانا سید ہدایت رسول قادری رامپوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:مولاناہدایت رسول قادری۔القاب:بارگاہِ اعلیٰ حضرت سے،سیف اللہ المسلول،شیر بیشہ اہلِ سنت،مجاہدِ ملت،اور سلطان الواعظین،کے القاب عطاہوئے۔والدکااسمِ گرامی:مولانا سیدمحمداحمدرسول قادری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کےآباؤاجداد"ساداتِ بخارا "سے تھے۔آپ کے جد امجد مولانا شاہ سید عبد الرسول علیہ الرحمۃ بخارا سے ہجرت کرکے سورت اور پھر"رامپور "آکر بس گئے، اور وہیں وصال ہوا۔
تاریخِ ولادت:مولانا ہدایت رسول قادری (غالبا) 1860ءکو" رامپور"(اترپردیش،انڈیا) میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم:مولانا سیدہدایت رسول رامپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔اپنے والد کے وصال کےبعد رام پور سے لکھنؤتشریف لے آئے اور کچھ عرصےکے بعد بریلی شریف میں اعلی ٰحضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کسب علوم ظاہری و باطنی کیا۔ حق گوئی و بے باکی اور پر اثر خطابت کی وجہ سے بارگاہ اعلیٰ حضرت سے سیف اللہ المسلول ،شیر بیشتہ اہل سنت، مجاہد ملت ،اور سلطان و رالواعظین وغیرہ کے خطابات سے نوازے گئے۔
بیعت وخلافت: آپ سید شاہ ابو الحسین نوری میاں مارہروی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور بارگاہ نوری سے اجازت و خلافت سےبھی نواز ے گئے۔بعد میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ نے بھی خرقۂ خلافت عطا کیا آپ کے مریدین کی تعداد خاصی تھی۔لیکن عام طور پر آپ لوگوں کواعلیٰ حضرت یا سرکار مارہرہ شریف سے بیعت ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔یہ آپ کا فیضانِ نظر ہی تھا۔کہ مولانا حشمت علی خان صاحب کو مدرسہ دیوبند سے نکال کر دار العلوم منظر اسلام بریلی میں اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کردیا۔
سیرت وخصائص:سر زمین پاک و ہند کے افق پر انیسوی صدی عیسوی کےآواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں جو عظیم علمی دینی اور سیاسی شخصیات ابھری ہیں ان میں علامہ مولانا سید ہدایت رسول صاحب قادری برکاتی علیہ الرحمۃ و الرضوان کی ذات بھی اہم کردار کی حامل ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سےقرب و محبت :حضرت مولانا ہدایت رسول قادری صاحب کو اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے بے پناہ تعلق اورخصوصی لگاؤ تھا۔آپ کی محبت و عقیدہ کا یہ عالم تھا کہ آپ کوئی قدم جو دین و ملت کی بھلائی کےلیے ہوتا آپ ان کے مشورے کے بغیر نہ اٹھاتے۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بھی آپ سے بہت محبت فرماتے اور آپ کا بے حد اکرام فرمایا کرتے تھے۔استادو شاگرد کے تعلق کے علاوہ اعلیٰ حضرت آپ کو اپنا دست راست جانتے تھے چنانچہ آپ کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ"اگرمجھ جیسا لکھنےوالا اور ہدایت رسول جیسا بولنے والاہندوستان میں اور ہوتا تو بدمذ ہبیت کا نام و نشان تک نہ ملتا"۔
غوث اعظم کا پنجہ:حضرت مولانا کی پشت مبارک پر ایک" پنجے کا نشان" تھا جس کی نسبت اس وقت کے اکابرین اولیائے کرام نے فرمایا کہ عالم ارواح میں حضرت سیدنا جلالت مآب حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ نےآپ کی پشت پر اپنا دست مبارک رکھا تھا اور یہ آپ کی کرامت خاص تھی۔کہا جاتا ہے کہ اعلی ٰحضرت رضی اللہ عنہ نے اپنے اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
؏:کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا
حق گوئی و بیباکی: یہ ایک تاریخی حقیقت ہےکہ جس کے شاہد اس دور کے اخبارات و رسائل کے صفحات ہیں کہ آپ علیہ الرحمہ خدا کے علاوہ کبھی کسی نے نہ ڈرے اور اعلائے کلمۃ الحق، احقاق حق،ابطال باطل اور تبلیغ دین مسلک میں کبھی کسی کی رو رعایت نہ کی،اور نہ کبھی کسی سےڈرے نہ دبے،حتی کہ اس وقت کی جابر و ظالم برطانوی حکومت کے خلاف بھی جرأت مندانہ تقریریں کیں،اور فرنگی حکومت کا جبر و استبداد و اور قید و بندا نہیں ذرا خوف زدہ نہ کر سکا۔
دینی و ملی خدمات: مولانا اپنے دور کے بلند پایہ عالم ِباکمال تھے۔ان کے علمی بزرگی اور شرف کےلیے یہی بات کافی ہے کہ وہ امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے شاگردِ خاص اور ان کی بارگاہ کے فیضیاب تھے۔اور ان کے دست راست کہلائے جاتے تھے۔آپ تحریر و تقریر دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔بے مثل اور نڈر مقرر تھے۔آواز بھاری اور رعب دار تھی اور اللہ رب العزت نے ان کو یہ کرامت عطا کی تھی کہ ان کی آواز ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کے مجمع میں تمام سامعین تک یکساں پہنچتی تھی۔آپ تمام علوم کے ماہر تھے۔آپ اُردو، فارسی،عربی ہندی اورسنسکرت پردسترس رکھتے تھے۔
تبلیغ و ارشاد:مولانا ہدایت رسول صاحب نے اپنی حیات مستعار کے ایک ایک لمحے کو تبلیغ دین و مسلک اہلسنت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔انہوں نے تقریر ،تحریر،مناظرہ اور اخبارات و رسائل میں مضامین کے ذریعے ترویج اشاعت دین کی خدمات انجام دیں ، لیکن سب سے زیادہ شہرت آپ کو آپ کی تقاریر اور مناظروں سے حاصل ہوئی۔آپ نے ہندوستان کےطول وعرض میں تبلیغی دور ے کیے، اور اپنی تقاریر اور مناظروں سے دین اسلام اور مسلک حق اہل سنت و جماعت کی حقانیت کو اجاگر کیا۔ہزاروں گمراہ مسلمانوں کو راہ ہدایت دکھائی اور ہزاروں مشرکوں اور کافروں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔آپ نے دین اسلام کی حقانیت کےا ظہار کے لیے آریوں، عیسائی پادریوں اور قادیانیوں سے کئی معرکۃ آراء مناظرے کیے اور مسلکی حوالے سے نیچریوں ، رافضیوں اور وہابیوں ،دیوبندیوں سے کامیاب مناظرے کیے۔
سیاسی خدمات: آپ نے امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی طرح سر زمین ہندوستان پر فرنگیوں کے تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔آپ انگریزوں کے کالے قوانین کی منسوخی کےلیے برابرجدو جہد کرتے رہے۔اس سلسلہ میں ان کا انگریزوں سے ایک ہی مطالبہ تھا،کہ انگریزوں نے سازش کے ذریعے تخت دہلی پر قبضہ کیا لہٰذاہندوستان کا اقتدا مسلمانوں کے حوالے کر کے انہیں سر زمین ہند سے نکل جانا چاہیے۔ جد و جہد آزادی کی ان کوششوں مین مولانا کئی بار پابندِسلاسل ہوئے اور قید و بند کی اذیتیں برداشت کیں۔لیکن ان کے پائے ثبات کو لغزش نہ آئی۔
وصال: 23/رمضان المبارک 1332ھ،مطابق اگست/1914ءکو آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔کہا جاتا ہے کہ آپ کو انگریزوں نے زہر دلوایا تھا۔آپ کےانتقال کے بعد اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا!کہ": آج میرا دست راست جاتا رہا"۔آپ کا مزار "رامپور" میں حضرت شاہ د رگاہی علیہ الرحمہ نکے مزار کے پائیں جانب ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت۔