حضرت حسین صفائی شیخ
ف۹۳۱ھ/ ۱۵۲۴ء
حضرت شیخ حسین صفائی ٹھٹھہ کے عظیم المرتبت بزرگوں میں سے تھے، آپ کی والدہ حضرت پیر مراد رحمۃ اللہ علیہ کی خادمہ تھیں اپنی والدہ کے ہمراہ آپ کا بھی پیر مراد ہاں آنا جانا رہا، چناں چہ ابتداہی سے پیر مراد کی تربیت اور باطنی توجہ سے آپ میں آثار ولایت نظر آنے لگے تھے۔
تذکرۃ المراد میں ہےکہ ایک روز حضرت سید مراد وضو فرمارہے تھے، آپ نے وضو کا بچا ہوا پانی حضرت حسین صفائی کو پینے کے لیے دیا پانی کا پینا تھا کہ آپ کی دنیا ہی بدل گئی ، ایک عجیب روحانی کیفیت آپ پر طاری ہوگئی اور آپ اسی دم ولایت کے درجہ پر فائز ہوکر ولی کامل بن گئے۔
شیخ حسین صفائی بڑے مستغنی المزاج انسان تھے، جو کچھ میسر آتا اس میں سے حسب ضرورت کچھ لے کر باقی ماندہ کو راہ خدامیں خرچ کریتے تھے، زیادہ تروقت تنگ دستی ہی میں بسر کرتے ، آپ کے دور کے فرماں روا شاہ حسن ارغون نے کئی بار آپ سے مشرف ملاقات کی درخواست کی مگر آپ نے اسے ہمیشہ مسترد کردیا کیونکہ آپ حاکموں سے ملاقات کو پسند نہیں کرتے تھے۔
دنیاوی مال و دولت سے آپ کی بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ کے ایک خادم نے کیمیا بنانے کا نسخہ پیش کیا تاکہ آپ فراخ دست ہوں اور مالی تنگی ختم ہوجائے، چند دن کے بعد یہی خادم آپ کی خدمت میں حاضر ہوا دیکھا کہ شیخ کے گھر میں تو حسب سابق تنگ دستی اور افلاس ہے، اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوا ، وہ آپ سے عرض گذار ہوا حضرت میں نے تو آپ سے تنگدستی اور افلاس کے خاتمہ کے لیے سونا بنانے کا نسخہ پیش کیا تھا مگر آپ نے اس کی طرف توجہ ہی نہیں فرمائی، شیخ نے فرمایا جاؤ ہمارے کسی بیت الخلاء میں جاکر تماشہ دیکھو، خادم نے ایک ایک بیت الخلاءمیں جاکر دیکھا وہاں سونے چاندی کے ڈھیرپڑے ہیں، جب خادم یہ نظارہ دیکھ کر لوٹا تو آپ نے فرمایا کہ اے بے خبر ! تو نے دیکھا کہ دنیا مردان خداکی نظر میں کسی قدر ذلیل اور خوار ہے، تم جس چیز کو دل میں جگہ دیتے ہو سرآنکھوں پر رکھتے ہو اور سینے سے لگا ئے پھرتے ہو ہم نے اسے اپنےپاس سے نکال کر بیت الخلاء کے سپرد کر دیا ہے۔
آپ نے ۹۳۱ھ میں وفات پائی‘‘ھو خیرالبقاء’’ سے آپ کا سن وفات (۹۳۱) نکلتا ہے، آپ مکلی ٹھٹھہ میں اپنے سید مراد کے مزار مبارک کے پائنتی کی جانب مدفون ہیں، آپ کی قبر مبارک مرجع خلائق ہے۔آپ نے اپنے مرشد حضرت شیخ مراد کی سوانح حیا ت‘‘تذکرۃالمراد’’ کے نام سے مرتب کی۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )