آپ حضرت امام ابوحنیفہ کے مرید اور شاگرد تھے۔ آپ علوم و فنون میں جامع تھے۔ اور کشف و کرامت میں مشہور زمانہ تھے۔ آپ کے ہمعصر فضیل ابن عیاض اور ابوسفیان تھے۔ اپنے زمانہ میں سخاوت، علم، شجاعت اور عباردت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
ابتدائی عمر میں ایک کنیز کو دل دے بیٹھے۔ سردیوں کی ایک اندھیری رات جب کہ آسمان سے برف باری ہو رہی تھی۔ غلبۂ محبت میں اپنی معشوقہ کے گھر کی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گئے کہ شاید اس طرح معشوقہ باہر آئے اور آپ دیکھ سکیں۔ اس آرزو میں ساری رات گزر گئی آپ انتظار میں بیٹھے رہے۔ موذن نے صبح کی اذان دی۔ آپ نے سمجھا کہ عشاء کی اذان ہے اس طرح محویت میں سارا دن بیٹھے رہے۔ حتیٰ کہ شام ہوگئی۔ شام کو دل سے آواز آئی۔ ابن مبارک تمہیں شرم آنی چاہیے ایک دنیاوی معشوقہ کے انتظار میں ساری رات اور دن ایک جگہ بیٹھے رہے ہو۔ وہ بھی نہیں آئی۔ اگر یہی محویت اللہ کی راہ میں ہوتی تو مقبولانِ بارگاہ ررب العالمین ہوتے۔ اس خیال سے تائب ہوگئے اور عبادت الٰہیہ میں مشغول ہوگئے ایک ایسا مقام آیا کہ ایک دن آپ کی والدہ نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک اپنے باغ میں سو رہے ہیں ایک کالا سانپ نرگس کی ٹہنی منہ میں لیے عبداللہ کے چہروں سے مکھیاں ہٹا رہا ہے اور آپ آرام سے سو رہے ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن مبارک رضی اللہ عنہ ایک سال حج کرتے۔ ایک سال عمرہ اور ایک سال پوری طرح تجارت کرتے۔ تجارت سے جو کچھ حاصل ہوتا حج پر صرف کرتے اور باقی غرباء میں تقسیم فرمادیتے اور درویشوں کو کھجوریں خرید کر مفت دیتے۔ اور اپنے سامنے بٹھا کر کھلاتے۔ ہر ایک کے سامنے جتنی گٹھلیاں ہوتیں اتنی ہی مزید عنایت فرماتے اور بڑی محبت سے کھلا کھلا کر خوش ہوتے تھے۔
ایک دن آپ ایک راہ پر جا رہے تھے کہ ایک نابینا ملا آپ نے اسے کہا کہ دیکھو! عبداللہ ابن مبارک آ رہے ہیں وہ بہت سخی آدمی ہیں۔ ان سے کچھ مانگ لو نابینا اسی وقت اٹھا اور آواز دے کر کہنے لگا۔ اے عبداللہ! میں آنکھوں سے نابینا ہوں مجھے روشنی چاہیے حضرت عبداللہ نے گردن جھکا کر کہا اے اللہ اب میری شرم رکھنا اور اسے روشنی عطا فرما دے نابینا اسی وقت بینا ہوگیا۔ ایک سال حضرت عبداللہ حج پر نہ جاسکے۔ ذوالحجہ کی چھ تاریخ آگئی آپ کو بڑا افسوس ہوا کہ میں اِمسال حج پر نہیں گیا۔ صحراء میں نکلے تو ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جس کی کمر جھک کر کمان ہوچکی تھی۔ بڑھیا نے پوچھا عبداللہ! تم حج کرنا چاہتے ہو، آپ نے کہا: ہاں! کہنے لگی آؤ میں تمہیں میدان عرفات میں پہنچا دوں، آپ نے خیال کیا کہ چھ ماہ کا دُور دراز راستہ اب چند روز میں کس طرح طے ہوسکتا ہے اس بڑھیا نے کہا: اگرآج تم صبح کے وقت دریائے جیحون کے کنارے دو نفل پڑح لو، تو جس رفتار سے سورج جاتا ہے تم بھی میدان عرفات تک پہنچ جاؤ گے، آپ نے کہا: بسم اللہ! اگر یوں ہوسکتا ہے تو مجھے اور کیا چاہیے، بڑھیا حضرت عبداللہ کو لیے دریا کے کنارے پہنچی، تو کہنے لگی: عبداللہ آنکھیں بند کرو، حضرت عبداللہ نے آنکھیں بند کرکے کھورلیں تو دونوں میدان عرفات میں کھڑے تھے، حج سے فارغ ہوئے تو بڑھیا نے حضرت عبداللہ کو کہا میرا ایک بیٹا ہے جو ایک عرصہ سے اک پہاڑ کی غار میں محو عبادت ہے آؤ، اس سے مل آئیں، غار میں پہنچے تو ایک خوبرو نوجوان کو دیکھا جس کے چہرے پر نور کی کرنیں ٹپک رہی ہیں، رنگ زرد ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر ایک کشش تھی۔ اٹھا اور اپنی والدہ کے قدموں میں گر پڑا، کہنے لگا مجھے پتہ ہے آپ اپنی خواہش سے مجھے ملنے نہیں آئیں بلکہ اللہ کے حکم سے یہاں آئی ہو، اللہ نے میرے تجہیز و تکفین کے انتظام کے لیے بھیجا ہے کیونکہ آج میری عمر کا آخری روز ہے نوجوان کا انتقال ہوگیا ، تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے، تو حضرت عبداللہ سے کہنے لگی اب مجھے دنیا میں کوئی کام نہیں میں تو بیٹے کی قبر پر رہوں گی، تمہیں اجازت ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مبارک کا ایک غلام تھا ہر روز دن کو آپ کی خدمت بجالاتا اور رات کو غائب ہوجاتا۔ حضرت عبداللہ نے ایک دن پوچھا تم رات کو کہاں غائب ہوجایا کرتے ہو، وہ کہنے لگا: حضرت! یہ ایک راز ہے اس سے پردہ نہ اٹھائیے میں اس رازداری کے عوض آپ کو ہر روز ایک دینار دیا کروں گا، لوگوں میں یہ مشہور تھا کہ حضرت عبداللہ کا غلام رات کو چوری کرتا ہے اور حضرت عبداللہ کو اپنی چوری کی کمائی سے ایک دینار دے دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ کو اس بات سے بڑا صدمہ ہوا، ایک رات حضرت عبداللہ اس کے تعاقب میں نکلے ایک قبرستان میں پہنچے ایک قبر کو تھوڑا سا کھولا، اور اس کے اندر جا گھسا، ایک بوریا زیب تن کیا اور عبادت میں مشغول ہوگیا صبح کی اذان تک مشغولِ عبادت رہا، قبر کے منہ کو بند کیا۔ مسجد میں نماز فجر ادا کی، دعا کرنے لگا، اے اللہ رات تیری بارگاہ میں گزری، صبح مالک مجازی ایک دینار طلب کرے گا، میری مفلسی کا سرمایہ تو تُو ہی ہے، ایک نور کا شعلہ نمودار ہوا اور اس غلام کے ہاتھ پر ایک دینار پڑا تھا۔ غلام باہر جانے لگا، تو حضرت عبداللہ یہ واقعہ دیکھ کر بے حال ہوگئے، اٹھے غلام کو گلے لگایا سر کو چوما اور کہنے لگے: ’’تمہاری غلامی پر میرے جیسے ہزاروں مالک قربان ہوں، کاش کہ تم مالک ہوتے اور میں غلام ہوتا‘‘ یہ سنتے ہی غلام نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور کہا: اے اللہ۱ میرا راز فاش ہوگیا ہے۔ اب مجھے سکون نہیں رہے گا مخلوق مجھے تنگ کرے گی تو اس فتنہ سے محفوظ رکھ اور مجھے دنیا سے اٹھالے ابھی اس کا سر حضرت عبداللہ کی بغل میں ہی تھا کہ جان اللہ کے حوالے کردی، حضرت عبداللہ نے اسی بوریے میں آپ کو کفنایا دفن کرنے کے بعد چند روز تک فاتحہ خوانی میں مصروف رہے۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ حضور پر نور سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے فرمایا: عبداللہ تم نے ہمارے دوست کو بوریے میں کفنایا اور قبر میں دفن کردیا، کیا اچھا ہوتا تم اس سے بہتر اہتمام کے ساتھ دفن کرتے۔ آپ کی وفات ۱۸۱ھ میں ہوئی۔
آں امام دین کہ عبداللہ بود
|
|
باد بر رویش سلامِ اہل دین
|
(خزینۃ الاصفیاء)