جعفر صادق، امام ابو عبداللہ
نام: جعفر (حضرت جعفرِ طیّارکی نسبت سے رکھا گیا)
کنیت: ابوعبداللہ،
ابو
اسماعیل اور
ابو موسیٰ۔
اَلقاب: صادق، فاضل، کامل
نسب
(والد کی طرف سے):
والدِ ماجد کی طرف سے حضرت امام جعفر صادق
حسینی
سیّد ہیں۔ حضرت سیّدنا امام حسین کے آپ
پرپوتے
ہیں۔ سلسلۂ نسب اِس طرح ہے:
امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن
امام علی زین العابدین بن شہیدِ کربلا امام حسین بن شیرِ خدا حضرت علی المرتضیٰ و
فاطمۃ الزہرا۔
نسب
(والدہ کی طرف سے):
والدۂ ماجدہ کی طرف سے حضرت امام جعفر
صادق صدّیقی
ہیں۔ سلسلۂ نسب اِس طرح ہے:
امام جعفر صادق بن حضرت بی بی اُمِّ
فَروَہ بنتِ قاسم بن محمد بن ابو بکرصدّیق۔
آپ کی والدۂ محترمہ حضرت سیّدہ اُمِّ فروہ حضرت
سیّدنا ابوبکر صدّیقکی پرپوتی
بھی تھیں اور پرنواسی بھی۔ اس لیے آپ فرمایا کرتے تھے ’’وَلَدَنِیْ
اَبُوْبَکْرٍ مَّرَّتَیْنِ‘‘
یعنی
مجھے حضرت ابوبکر صدّیق سے دوہری ولادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔
تاریخِ ولادت: 17؍ ربیع الاوّل80 ھ، مطابق24؍ اپریل702ء، بروز
پیر، یا جمعۃ المبارک۔
مقامِ
ولادت: مدینۃ الرسولﷺ۔
آپ تابعی
ہیں:
حضرت
امام جعفر صادق نے دو (2) جلیل القدر صحابۂ
کرام: حضرت سیّدنا انس بن مالک اور
حضرت سیّدنا سہل بن سعدکی زیارت کا شرف پایا
ہے، اس لحاظ سے آپ ’’تابعی‘‘
ہوئے۔
حلیہ
شریف اور چہرۂ انور:
حضرت عبید بن
رافع فرماتے ہیں:
’’میں نے حضرت امام جعفر صادق کی زیارت کی ہے ۔آپ درمیانہ قد ،خوب صورت
جسم، اور چہرہ ایسا حسین کہ جیسے سورج آپ کے چہرۂ انور میں گردش کر رہا ہو۔کا لی
سیاہ زلفیں ،اور ان زلفوں میں چہرہ ایسے نظر آرہا تھا جیسے اندھیری
رات میں چودھویں کاچاند نظر آتا ہے۔‘‘
حضرت
عمرو بن مقدام فرماتے ہیں :
’’جب میں امام جعفر صادق کو دیکھتا تھا،
تو آپ کے چہرۂ انور کی زیارت کرتے ہی یہ خیال آتا کہ اس نورانی
شخصیت کا تعلق نبی اکرم حضرت سیّدنا محمد مصطفیٰﷺ
کے پاک گھرانے سے ہے۔‘‘
تحصیلِ علم:
حضرت امام جعفر صادق نے خاندانی روایات کے
مطابق ظاہری و باطنی علوم کی تحصیل و تکمیل اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام محمد باقر اور اپنے دادا گرامی سیّدنا امام زین العابدین اور اپنے نانا جان
فقیہ ِ اعظم مدینۂ منوّرہ حضرت سیّدنا امام
قاسم بن محمدسے
حاصل کی۔ ان کے علاوہ، صحابیِ رسولﷺحضرت سہل بن سعداورحضرت عروہ بن زبیر سے بھی
تحصیلِ علم
کیا۔
بیعت
وخلافت:
حضرت امام جعفر صادق نے اپنے والدِ گرامی
سے روحانی تربیت حاصل کی۔ ان کے علاوہ اپنے نانا جان فقیہ ِ اعظم مدینۂ منوّرہ ، حضرت سیّدنا امام قاسم بن محمدسے بھی
اکتسابِ فیض کیا۔ حضرت امام قاسم کوحضرت سلمان فارسیسے فیض
ملا ہے اورحضرت سلمان فارسی کو آپﷺکے
فیضِ صحبت
کے علاوہ حضرت سیّدنا ابو بکر صدّیق سے
بھی فیض حاصل ہوا۔
بعض
فیض یافتگان:
حضرت سیّدنا امام جعفر صادق سے فیض پانے
والی بعض جلیل القدر ہستیوں کے نام یہ ہیں:
1.
حضرت امام موسیٰ
کاظم(یہ امام جعفر صادق کے صاحبزادے ہیں)
2.
حضرت سیّدنا امامِ اعظم ابوحنیفہ
3.
حضرت سیّدنا امام
مالک
4.
حضرت سیّدنا سفیان
ثوری
5.
حضرت سیّدنا سفیان
بن عیینہ
سیرت
و خصائص:
ملّتِ نبوی کے سلطان، دینِ مصطفیٰ
ﷺ کے پاسبان ،علومِ نبویّہ کے مظہر و وارثِ کامل، اہل ِ حق کے
امام، اہلِ
ذوق
کے پیش رو، صاحبانِ عشق و محبت کے پیشوا، عابدوں کے مقدّم، زاہدوں کے مکرم ،خاندانِ
نبوّت کے چشم وچراغ حضرت سیّدنا امام جعفر صادق پیکرِ حُسنِ اخلاق تھے،
خندہ پیشانی آپ کی عادات میں شامل تھی،
فضول گوئی سے اجتناب فرماتے، نماز و تلاوت و ذکر و اَذکار میں مصروف رہتے اور اکثر
روزہ دار رہتے۔ آپ کے کمالات اس قدر زیادہ ہیں کہ دائرۂ تحریر سے باہر ہیں۔ اس سے
بڑھ کر اور کیا کمال ہوسکتا ہے کہ سراج الامّہ امامِ اعظم ابو
حنیفہ آپ کے پاس دو سال رہ کر درجۂ کمال
تک پہنچ گئے اور نعرہ لگایا:
لَوْلَا
السَّنَتَانِ لَھَلَکَ النُّعْمَان۔
ترجمہ: ’’اگر مجھے (حضرت امام جعفر صادق کی صحبت کے) دو سال نہ
ملتے، تو میں ہلاک ہوجاتا۔‘‘
سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں :
’’میں
نے اہلِ
بیت میں امام جعفر بن محمد سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں دیکھا۔‘‘
مشہور محدث حضرت سفیان
ثوری فرماتے
ہیں:
’’میں
نے آپ جیسا عالم ،زاہد،حسین اور سخی نہیں دیکھا۔‘‘
حضرت امام مالک فرماتے
ہیں:
’’میں
حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔آ پ کی ذات اخلاق و عاداتِ
مصطفیٰ ﷺاورحُسنِ مصطفیٰ ﷺ کا حسین امتزاج تھی اور تمام علوم میں درجۂ کمال حاصل
تھا۔تمام نسبتوں اور فضیلتوں کے باوجود آپ سب سے زیادہ خوفِ خدا والے
تھے۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت ابو سلیمان داؤد
طائی نے حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
’’اے
فرزندِ رسولﷺ! مجھے نصیحت فرمائیں کیوں کہ میرا دل سیاہ ہوگیا ہے۔‘‘
حضرت امام
جعفر صادق نے فرمایا:
’’یا
ابا سلیمان! آپ تو زاہدِ زمانہ ہیں۔ آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
حضرت داؤد
طائی نے عرض کیا:
’’اے
فرزندِ رسولﷺ! آپ کو سب پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لیے آپ پر واجب ہے کہ سب کو نصیحت
کریں۔‘‘
فرمایا:
’’یا
ابا سلیمان! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جدِّ بزرگ وار انبیا ء کے
سردارﷺ میرا دامن پکڑیں اور یوں فرمادیں کہ میرا حقِ
متابعت
کیوں نہ ادا کیا؟ کیوں کہ یہ کام نسب کی شرافت پر موقوف نہیں، بلکہ درگاہ ِربّ
العزت میں عمل کی پسندیدگی معتبر ہے۔‘‘
یہ سن کر حضرت داؤد
طائی بہت
روئے۔ اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:
’’اے
پروردگار! جس شخص کی سرشت نبوّت کے آب و گِل سے ہے، اور جس کی طبیعت کی ترکیب
آثارِ رسالتﷺ سے ہوئی ہے، اور جس کے جدِ بزرگ وار رسولِ
کریم ﷺ ہیں،
اور ماں حضرت فاطمہ بتول ہیں،
جب وہ ایسی حیرانی میں ہے تو داؤد
کس شمار میں ہے !‘‘
حدیثِ
پاک کا احترام:
حضرت امام جعفر صادق حدیثِ پاک کا اس قدر احترام فرماتے
تھے کہ حدیثِ پاک ہمیشہ با وضو ہونے کی حالت ہی میں بیان فرماتے، کبھی بھی بے وضو
کوئی حدیث بیان نہ فرماتے۔
بچپن
میں خوفِ خدا کا عالَم:
حضرت امام جعفر صادق چار(4) سال کی عمر شریف میں سرِ بازار زارو قطار رو رہے تھے ، ایک
صاحِب نے خدمتِ آلِ رسولﷺ کے جذبے سے سرشار ہو کر عرض کی: اے شہزادے ! کیا بات
ہے؟ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو حکم فرمائیں ابھی پیش کر دوں گا۔ یہ سُن کر آپ کے رونے کی آواز مزید ہو گئی اور
کہا: اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذابِ جہنم کے خوف سے دل بیٹھا جا رہا ہے۔ اُن صاحِب نے عرض کی : اے
شہزادے! آپ بَہُت ہی کم عمر ہیں، ابھی سے اِتنا خوف کیسا؟ اطمینان رکھیے، بچّوں کو عذاب
نہیں دیا جا ئے گا۔ یہ سُن کر آپ کا خوف مزید نمایاں ہو گیا اور روتے ہوئے فرمانے لگے: میں
نے دیکھا ہے کہ بڑی لکڑیاں سُلگانے کے لیے ان کے گرد لکڑی کی چھیلن اور چھوٹی
چھوٹی کَھپچیاں وغیرہ چُن دی جاتی ہیں ، چھپٹیاں جلدی سے آگ پکڑلیتی ہیں، جن کی
بدولت بڑی لکڑیاں بھی جل اُٹھتی ہیں! میں ڈرتا ہوں کہ ابوجہل اور ابو لہب جیسے بڑے بڑے کافِروں کو جہنم میں جلانے کے لیے چھپٹیوں کی جگہ کہیں مجھے آگ
میں نہ ڈال دیا جائے!
شجرۂ
اعلیٰ حضرت:
شجرۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے حضرت سیّدنا امام جعفر صادق کا ذکر یوں کیا ہے:
صدقِ
صادق کا تَصدّق صادق الاسلام کر
بے غضب راضی ہو کاظم اور رضا کے واسطے
رجب المرجب کے کونڈے:
خلیفۂ اعلیٰ
حضرت صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی اپنی
شہرۂ آفاق کتاب ’’بہارِ شریعت ‘‘میں تحریر
فرماتے ہیں:
’’ماہِ رجب
میں بعض جگہ حضرت امام جعفر صادق کو ایصالِ ثواب کے لیے
پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں؛ یہ بھی جائز، مگر اس میں بھی اُسی جگہ کھانے کی
بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے، یہ بے جا پابندی ہے۔ اس کونڈے کے متعلّق ایک کتاب بھی
ہے، جس کا نام داستانِ عجیب ہے، اس موقع پر بعض لوگ اس کو پڑھواتے ہیں اس میں جو کچھ
لکھا ہے، اُس کا کوئی ثبوت نہیں؛ وہ نہ پڑھی جائے، فاتحہ دلا کر ایصالِ ثواب
کریں۔‘‘ (بہارِ
شریعت، حصّہ 16، جلد 3، صفحہ 643)
مفسرِ شہیر حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں نعیمی تحریر فرماتے ہیں:
’’امام جعفر صادق کی فاتحہ کرے، بہت اَڑی
ہوئی مصیبتیں جاتی ہیں۔‘‘ (’’اسلامی زندگی‘‘، صفحہ 133)
یعنی حضرت امام جعفر صادق کی فاتحہ کی
برکت سے بہت سخت قسم کی اَڑجانے والی
مصیبتیں بھی ٹل جاتی ہیں۔
وصالِ
پُرملال: 15؍ رجب المرجب148ھ ،مطابق 765ء۔
مقامِ تدفین: قبۂاہلِ بیتِ
اَطہار، جنّت البقیع(مدینۂ منوّرہ)۔


