حضرت مولانا سید جلال الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت مولانا سید جلال الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ۔والدکااسم گرامی: آپ کے والد ماجد حضرت صوفی سید عبدالشکورعلیہ الرحمہ ایک عابد و زاہدشخص تھے۔ شریعت مطہرہ کے پابند تھے، انہوں نے اپنے خاندان کی ایک نہایت متقی پرہیزگارو نیک سیرت خاتون حضرت برکت فاطمہ سے نکاح کیا۔آپ کاخاندان ہندوستان میں ورود کےبعدضلع بجنورمیں سکونت پذیرہوا۔آپ کے خاندان میں کافی علماء و مشائخ گزرے ہیں۔ آپ کے نانا جان حضرت مولانا سید فرید الدین اور ماموں جان حضرت مولانا سید اصغرعلی کا شمار وقت کے جید علماء و مشائخ میں ہوتا تھا۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت1328ھ،مطابق 1910ء کوبوقتِ صبح ہوئی۔
تحصیلِ علم: حضرت مولانا جلال الدین علیہ الرحمہ نے قریبی مدرسہ میں 8 سال کی عمر میں کلام پاک ناظرہ ختم کیا ہی تھا کہ والد مکرم کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا اور مسئلہ فکر معاش پیدا ہوگیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ کو آپ کی تعلیم کی فکر تھی جب کہ اعزہ کا مشورہ تھا کہ کسی کام کا ج پر لگا دیا جائے۔ بالآخر آپ کی والدہ نے جمع شدہ پونجی دے کر چپکے سے حصول علم کیلئے آگرہ روانہ کردیا۔ آگرہ اس وقت دینی علوم کا مرکز تھا۔ 12 سال کی عمر میں آپ نے آگرہ میں کلام پاک حفظ کر لیا۔ وقت کے جید علماء سے تعلیم حاصل کی"مدرسہ شعیب محمد یہ" آگرہ سے بیس سال کی عمر میں رمضان المبارک 1353ھ1938ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ کے اساتذہ کرام میں نامور علمی شخصیت حضرت مولانا روشن الدین کی تھی۔ جن سے آپ نے خصوصی طور پر استفادہ کیا تھا۔ ان کا سلسلہ اساتذہ چند واسطوں سے حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہٗ کے نامور فرزند عارف ِکامل، عاشق خیر الوریٰ حضرت علامہ شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ سے جاکر ملتا ہے۔
بیعت وخلافت: اپنے وقت کے ولی کامل حضرت حاجی سیدآل حسن چشتی صابری المعروف کامل شاہ علیہ الرحمۃ (متوفی 1962ء مدفون پاپوش نگر قبرستان)کی خدمت میں پہنچے تو بہت متاثر ہوئے اور انہیں کے ہاتھ پر سلسلہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہوئے،اورخلافت سےمشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: عالم وعارف،پیرِطریقت،عاملِ سنت،صاحبِ تقویٰ وعبادت،حضرت علامہ مولانا سیدجلال الدین چشتی صابری رحمۃاللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ کاشماراپنےوقت کےکاملین میں ہوتاتھا۔عبادت وریاضت کثرت سےکرتےتھے۔آپ خوش الحان قاریِ قرآن اورواعظِ شیریں بیان تھے۔آپ نے دوران تعلیم بڑی صعوبتیں اٹھائیں، گزر اوقات کیلئے کئی جگہ پر ملازمت اختیار کی لیکن والدہ محترمہ نے جس مقصد کیلئے بھیجا تھا اسے ادھورا نہ چھوڑا۔ اپنے تعلیمی دور کےبارےمیں بتاتےتھے کہ ہمارے دور میں مدرسوں میں اس قدر آسانیاں نہیں ہوتی تھیں، جتنی آج ہیں طلباء کو بہت سے کام خود کرنے پڑتے تھے۔ باری باری جنگل سے دو طالب علموں کو روزانہ لکڑیاں کاٹ کر لانی پڑتی تھیں جس سے مدرسہ کے طلباء کا کھانا پکایا جاتا تھا۔اسی طرح کےدیگرکام خودکرناپڑتےتھے۔
ریاضت: رمضان المبارک میں ہر ترویحہ(چار رکعت تراویح)میں جس قدر کلام پاک سنایا کرتے اس کا ترجمہ مقتدیوں کو سناتے لوگ کمال توجہ سے سنتے ذرا نہ اکتاتے تھے۔ شب زندہ داری معمول تھی، اکثر عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھا تے۔ ایک مرتبہ شبینہ میں ایک رکعت میں 29 پارے سنائے اور باقی ایک پارہ بقیہ رکعت میں پورا کیا۔
مستجاب الدعوات: خشک سالی میں لوگ دور دور سے دعائے باران (بارش)کیلئے حاضر ہوتے۔ آپ ان سے فرماتے جو کہوں گا وہ کرو گے؟ لوگ اقرار کرتے آپ فرماتے :"خوب روؤ پھر خود بھی خوب روتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں بصدر عجز و انکسار دعا کرتے پھریہ ہوتا کہ آسمان پر بادل چھا جاتے اور بارش برسناشروع ہوجاتے۔"
خطابت: فارغ التحصیل ہونے کے بعد آگرہ (انڈیا ) کی عید گاہ مسجد میں امامت اختیار کی ۔ آگرہ میں آپ کے و عظ کی دھوم مچی ہوئی تھی دوردراز سے لوگ و عظ سننے آپ کی مسجد میں آتے تھے ۔ایک بار انبالہ شہر میں ایسا ہو ا کہ کچھ طوائفیں آپ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ہمارے ہاں بھی وعظ فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا:وعظ کی فیس لیتا ہوں ۔ وہ بولیں ہم دے دیں گے ۔ آپ حسب وعدہ ان کے ہاں وعظ کے لئے تشریف لے گئے اور ایسا مدلل بلیغ اور پر اثر وعظ کیا کہ سامعین مع طوائفیں رونے لگیں ۔ وعظ کے اختتام پر فرمایا: میری فیس دو۔ طوائفیں بولیں:آپ کیا فیس لیتے ہیں ۔ آ پ نے فرمایا:میری فیس روپیہ پیسہ نہیں ہے وہ کچھ اور ہے ۔ وہ بو لیں آپ کو کیا چاہئے ؟ آپ نے فرمایا:میری فیس یہ ہے کہ تم اس برے پیشہ سے توبہ کرواور آئندہ نیک زندگی بسرکرو ۔ تمام طوائفوں نے اسی وقت اس پیشہ ٔبد سے ہمیشہ کے لئے توبہ کی ۔ آپ نے بستی والوں سے فرمایا:تمہارے جو ان آگے آئیں اور ان سے نکاح کریں انہیں بیوی بنا کر عزت دیں تاکہ یہ اپنی آئندہ زندگی شرافت و نیکی پر گذار سکیں ۔"
مو لانا سید جلال الدین کو قرآن حکیم کی قرات میں کمال حاصل تھا ، صبح مسجد شریف میں قرات فرماتے تو راستہ میں چلتے ہوئے لوگ رک جاتے اور سننے میں محو ہو جاتے ۔ عورتوں کو یہ احساس تک نہ ہو تا تھا کہ ان کے سر پر پانی سے بھرا ہو ا گھڑا ہے یانہیں۔ آپ نے ہند میں ہندووں پنڈتوں اور عیسا ئی پادریوں سے مناظرے بھی کئے اور بعض اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے۔
قیا م پاکستان کے بعد انڈیا سے پاکستان کے بین الاقوامی شہر کراچی تشریف لائے اور کھارادر میں باغ زہرہ اسٹریٹ پر واقع او کھائی میمن مسجد میں امام و خطیب مقرر ہوئے ۔ کراچی میں تقریبا 34 سال کا عرصہ تبلیغ دین ، ترویج مسلک اہل سنت میں گذارا ۔ بعد نماز عشاء درس قر آن مسلسل دیتے تھے۔ آپ کےمرشد کریم بھی ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور لیاقت آباد کراچی میں سکونت اختیار کی ۔ آپ کی عقیدت و محبت کا یہ عالم تھا کہ ٹاور سے پیدل لیاقت آباد مرشد کریم کی زیارت کو جا نا آپ کا معمول تھا اگر دروازہ بند ہوتاتو مرشد کریم کے دروازہ پر دستک دینا خلاف ادب سمجھتے اس لئے گلی میں بیٹھ کر انتظار کرتے ۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 12/جمادی الآخر1402ھ،مطابق 8/اپریل 1982ء،شب جمعرات کو 72 سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ بروز جمعرات نماز جنازہ حضرت مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ نے پڑھائی ۔ آپ کا مزار پر انوار کراچی کے پاپوش نگر قبرستا ن میں"احاطہ کا مل شاہ "میں ہے۔
ماخذومراجع: انوارعلمائے اہل سنت سندھ۔