حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ حسینی سادات عظام میں سے تھے اور حضرت خواجہ ابواسحاق شامی قدس سرہ کے خلیفہ اکبر تھے۔ ریاضت اور مجاہدہ میں بے مثال خوارق و کرامات میں لاثانی تھے، آپ کا لقب قدوۃ الدین تھا، ظاہری و باطنی حسن و جمال کے پیکر تھے۔ آپ کا منور چہرہ دور سے روشن نظر آتا، جس شخص کی نگاہ آپ کے چہرہ پر پڑتی دل و جاں سے محبت کرنے لگتا تھا، آپ کی جبیں نور افشاں سے نور الٰہی کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ رات کو گھر میں روشنی کے بغیر تشریف لاتے تو سارا گھر روشن ہوجاتا تھا آپ اندھیرے میں بیٹھتے تو قرآن پاک کے حروف اعراب سمیت نمایاں نظر آتے تذکرہ العاشقین اور سیر الاقطاب کے مصنفین نے لکھا ہے کہ خواجہ ابو احمد بادشاہ فرغانہ کے بیٹے تھے جو چشت کے شرفاء اور سادات حسینی سے تعلق رکھتے تھے، آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت حسن مثنیٰ سے ملتا ہے۔ ابو احمد بن سلطان فرغانہ سید ابراہیم بن سید یحییٰ بن سید حسن بن سید مجد المعالی المشہور بہ ابو المعالیبن سیدنا صرالدین بن سید عبداللہ بن سید امام حسن مثنیٰ بن امیر المومنین امام المتقین امام حسن بن علی المرتضیٰ اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ۔
سلطان فرغانہ کی ایک بہن تھی، جو ولیہ عفیفہ اور صالحہ خاتون تھی، حضرت ابواسحاق شامی بسا اوقات ان کے گھر جاتے، اور کھانا بھی کھاتے ایک دن آپ نے انہیں فرمایا کہ تمہارے بھائی کو اللہ تعالیٰ ایک بیٹا دے گا اور اس کی تم پرورش کرنا، اس کے پیٹ میں مشکوک خوراک نہ جانے دینا۔ سلطان کی ہمشیرہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کی بھابھی حاملہ ہے تو اس کی خوراک کی نگرانی کرنے لگی، آخر بتاریخ ششم ماہ رمضان ۲۶۰ھ کو یہ بچہ خلیفہ معتصم باللہ کے دور حکومت میں پیدا ہوا۔ جب آپ کی عمر سات سال ہوئی تو حضرت ابواسحاق کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ ظاہری باطنی تعلیم لی اور حضرت خواجہ سے مستفیض ہوتے رہے، سولہ سال کی عمر میں ظاہری علوم سے فارغ ہوئے تو حضرت نے بیعت فرمالیا۔ اور خلوت کدہ میں ریاضت میں لگا دیا، بڑے مجاہدے کیے چنانچہ سات روز بعد کھانا کھاتے، وضو کرتے اور تین لقموں سے زیادہ نہ کھاتے۔ چالیس دنوں بعد حاجت انسانی کے لیے باہر جاتے۔
ایک دن خواجہ ابو احمد چشتی اپنے والد گرامی کے ہمراہ پہاڑوں پر شکار کھیلنے چلے گئے اتفاقاً والد اور ان کے ساتھیوں سے جدا ہوگئے اور پہاڑوں میں راستہ بھول گئے۔ رجال الغیب سے چالیس افراد ایک چٹان پر کھڑے تھے اور خواجہ ابو اسحاق شامی بھی انہی کے درمیان کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ کو پہچان کر گھوڑے سے اُتر آئے۔ قدم بوسی کی اسلحہ اور گھوڑا تن سے علیحدہ کیے اور خواجہ کی رکاب پکڑ کر پیدل چلنے لگے، آپ کے باپ نے اور ان کے لشکر نے پہاڑوں میں آپ کو بڑا تلاش کیا، مگر نوجوان ابواحمد کا کہیں پتہ نہ چلا، چند دنوں بعد خبر ملی کہ ابو احمد فلاں موضع میں حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی قدس سرہ کی خدمت میں موجود ہے۔ بادشاہ نے چند آدمیوں کو بھیجا کہ انہیں لے آئیں، مگر ان کی ساری پند و نصیحت کے باوجود ابو احمد نے حضرت شامی کی مجلس سے جانا پسند نہ کیا آٹھ سال تک محنت شاقہ سے گزرے خرقہ خلافت حاصل کیا، تیس سال تک کبھی بستر پر آرام نہیں کیا۔
حضرت خواجہ ابو احمد جس پر ایک بار نگاہ ڈالتے وہ صاحب کرامت بن جاتا اگر مریض کو ایک بار دیکھ لیتے تو شفایاب ہوجاتا۔ سماع کے وقت آپ کی جبیں سے خصوصی نور ظاہر ہوتا۔ جس کی شعاعیں آسمانوں کو چھوتیں، حضرت ابو احمد کی کرامات کی شہرت مشرق و مغرب میں پھیلی، تو علماء عصر کو آپ سے حسد ہونے لگا، آپ کے سماع کی مجالس کے خلاف فتوی بازی ہونے لگی، ایک محضرنامہ تیار کیا گیا، اور امیر نصیر جو حاکم عادل بھی تھا، اور آپ کا حقیقی ماموں بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، حضرت خواجہ کی مجلس سماع کی برائیاں بیان کی گئیں، امیر نے ملک بھر کے علماء کی ایک مجلس بلائی جس میں کئی ہزار علماء جمع ہوئے، خواجہ ابو احمد کو بھی اس مجلس میں پیش کیا گیا، حضرت خواجہ یہ خبر سن کر خرقہ خلافت پہنے گھوڑے پر سوار ہوکر امیر کے دربار میں پہنچے آپ کے ساتھ ایک خادم محمد خدا بندہ نامی تھا۔ جسے سورۃ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کے علاوہ قرآن سے کچھ یاد نہیں تھا، امیر نصیر کی بارگاہ میں پہنچے، آپ کی تشریف آوری سے پہلے تمام علماء اور حاسدین کا یہ ارادہ تھا کہ جب خواجہ ابو احمد آئیں تو کوئی شخص نہ استقبال کے لیے جائے اور نہ احترام میں اٹھے مگرایسا ہوا کہ جب خواجہ مجلس کے پاس آئے تو تمام علماء تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بعض نے آگے بڑھ کر استقبال بھی کیا مجلس میں لاکر ایک بلند مسند پر بٹھایا گیا، اور مسئلہ سماع پر گفتگو شروع کردی، جب علماء کرام اپنا نکتہ نظر بیان کرچکے اور اپنے اپنے اعتراضات کی تفصیل سنا چکے تو حضرت خواجہ ابو احمد نے اپنے خادم محمد بند ہ کو اشارہ فرمایا کہ ان علماء کرام کے اعتراضات کا جواب دو، خادم ان پڑھ تھا، مگر اسے یوں محسوس ہوا جیسے آج وہ سب سے زیادہ عالم اور فاضل ہے، اس نے علماء کے ایک ایک اعتراض کا جواب قرآن و احادیث سے دینا شروع کیا۔ بزرگان سلف کے طریقہ کو بھی بیان کرنے لگا تمام علماء اس کے جوباات سن کر دنگ رہ گئے بعض تو شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھے رہے۔
ہر آں کہتر کہ بامہتر ستیزد
چناں انتد کہ ہرگز بر نخیزد
حضرت خواجہ ابو احمد کے والد ایک شراب خانہ کے مالک تھے۔ اس میں کئی سال پرانی شراب کا ذخیرہ جمع رہتا تھا۔ حضرت خواجہ بچپن میں ایک دن شراب خانے میں چلے گئے اندر سے دروازہ بند کرلیا اور تمام شراب کے مٹکے توڑ ڈالے بادشاہ نے چھت پر چڑھ کر بچے کی ا س حرکت کو دیکھا تو نہایت غصہ میں چلایا اور ایک پتھر لے کر دے مارا۔ اگرچہ پتھر خواجہ ابواحمد تک پہنچا، مگر قریب جاکر ہوا میں معلو ہو گیا، سلطان دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شراب خانے میں آیا اور اپنے بیٹے کو اٹھا کر اللہ سے شراب نوشی سے توبہ کی، یہ واقع ۲۸۰ھ ہجری میں رونما ہوا تھا۔
حضرت خواجہ ابوا حمد ایک سفر میں ایسے ملک میں جا پہنچے جہاں کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ اور ہر طرف کافر ہی کافر تھے یہ ایسے سخت کافر تھے کہ انہیں کوئی مسلمان نظر آتا تو اسے پکڑ کر آگ میں پھینک دیتے، انہوں نے خواجہ ابو احمد کو دیکھا پہچان لیا کہ یہ مسلمان ہے، بڑی سختی کرنے لگے، خواجہ کو جلانے کے لیے ایک جگہ آگ جلائی گئی اور خواجہ کو اس میں پھینکنے کے لیے تدبیریں کرنے لگے، حضرت خواجہ نے انہیں کہا، تم لوگ مجھے آگ میں پھینکنے کی تکلیف نہ کریں میں خود ہی آگ میں کود پڑتا ہوں، آپ نے مصلی کندھے پر رکھا، اور آگ کے شعلوں میں کود پڑے، آگ سرد ہوگئی، آپ نے انگاروں پر مصلی بچھا دیا، اور دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی، ان دشمننانِ اسلام نے آپ کی کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور دل و جان سے آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے، جو شہر کفرآباد تھا، آپ کی برکت سے اسلام آباد بن گیا۔
حضرت ابواحمد ابدال رحمۃ اللہ علیہ ششم ماہ رمضان ۲۶۰ھ میں پیدا ہوئے۔ یکم ماہ جمادی الثانی ۳۵۵ھ کو فوت ہوئے۔
ہادی حق سید محبوب گو
۳۶۰ھ
سال تولیدش بقول اصفیاء
وصل او نور الٰہی احمد سست
۳۵۵ھ
نیز بو احمد فرید آمد بجا
۳۵۵ھ
عمدۃ الا برار قدوۃ الاخیار اولیاء کے بادشاہ اصفیا کے سلطان اتقیا کے برہان خواجہ ابو احمد چشتی قدس سرہ ہیں جو ملک مکاشفات کے ممالک کے حکمران اور مشاہدات کے دار السلطنت کے بادشاہ تھے آپ نے خرقہ ارادت خواجہ ابو اسحاق چشتی قدس اللہ سرہ سے حاصل کیا اور دوست کے بھیدوں میں سے کوئی بھید کبھی ظاہر نہیں کیا تھا آپ نے عالم ذوق و شوق میں حکومت و سلطنت کی ذرا پروانہ کی اور وارثان تاج و تخت کی طرف کبھی التفات نہیں کیا۔
(سیر الاولیاء)
آں لسان غیب وترجمان اسرار، آں سروفتر زمرۂ مشائخ کبار، سیمرغ گوہ قان قربت، عفتائے بلند پرواز ازو حدت، معرض از حورو قصور بہشتی امام ابدال حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی قدس سرہٗ تمام کمالات ظاہری وباطنی سے مزین تھے فنائے احدیت میں گم اور اسرار توحیدو ولایت کے سر پوش تھے (یعنی ظاہر نہیں کرتے تھے)
نسب، ارادت وخلافت
آپ حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ تے سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ آپ کا لقب قدوۃ الدین تھا۔ آپ سلطان فرستانہ کے فرزند تھے۔ جو شرفائ چشت وامراء ولایت میں سے تھے۔ آپ صحیح النسب سادات حسنی تھے۔ اور حضرت امام حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے۔ اس ترتیب سے کہ حضرت خواجہ ابو احمد ابن سلطان فرستانہ ابن سید یحییٰ بن سید احمد بن سید مجید المعالی بن سید ناصر الدین، بنس ید نور اللہ بن سید حسن مثنیٰ بن امیرالمومنین وامامالمتقین اسداللہ الغالب حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ۔
نفحات الانس میں مرقوم ہے کہ سلطان فرستانہ کی ایک بہت تھیں۔ جو نہایت ہی صالحہ تھیں حضرت ابو اسحاق چشتی ان کے گھر آیا کرتے تھ ے اور کھانا کھایا کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے اس بی بی سے کہا کہ تمہارے بھائی کے گھر ایک فرزند پیدا ہوگا جو بہت ہی بلند مرتبہ ہوگا۔ ایام جمل میں اس کی والدہ کی نگاہداشت کرنا تاکہ کوئی لقمہ حرام ان کے منہ میں نہ جائے۔ اس ضعیفہ صالحہ نے آپ کے ارشاد کی تعمیل کی۔ ح تیٰ کہ اپنے ہاتھ سے سوت بناکر فروخت کرتی تھیں اور بھائی کے حرم کے لیے حلال کا کھانا مہیا کرتی تھیں جب خواجہ ابو احمد چشتی پیدا ہوئے تو اسی صالحہ نے اپنے گھر میں سے جاکر ان کی پرورش کی کبھی کبھی حضرت خواجہ ابو اسحاق انکے گھر آیا کرتے تھے اور بچے کو دیکھتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس بچے سے ایک بزرگ خاندان ظاہر ہوگا۔ ایام طفلی میں احوال عجیبیہ اور آثار غربیہ نمایاں ہوتے تھے سات سال کی عمر میں آپ حضرت خواجہ ابو اسحاق کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت شیخ سماع سن رہے تھے جب بچے پر نظر پڑی تو پاس بلالیا۔ کہ آپ سات سال کی عمر میں ایسے اسرار ورموز بیان فرماتے تھے کہ علمائے وقت حیران رہ جاتے تھے آپ تیرہ سال کی عمر میں مرید ہوئے اور خلوت اختیار کرلی اور ذکر و شغل، ریاضت ومجاہدہ میں اس قدر مشغول ہوئےکہ سات دن کے بعد آپ افطار کرتے تھے اور مشائخ چشت رضوان اللہ تعالیٰ علیم ا جمعین کی سنت کے مطابق تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے تھے اسی طرح پانی بھی بہت کم پیتے تھے۔ چالیس دن کے بعد آپ قضائے حاجت کرتے تھے۔جو شخص آپ کے رخ انور پر نظر کرتا تا۔ دہشت زدہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کہ آپ جبیں مبرک اس قدر منور تھا کہ بغیر چراغ کے اندھریے کمرے میں بیٹھ کر تلاوت کلام پاک کرتے اور اعراب تک دیکھ سکتے تھے لیکن اصح (سب سے زیادہ صحیح) روایت یہ ہے کہ آپ نے بیس سال کی عمر میں ترک اختیار کیا اور حقیقت کو پہنچے۔ نفحات الانس میں لکھا ہے کہ جب آپ کی عمر بیس سال ک ی ہوئی تو ایک دن اپنے والد سلطان فرستافہ کے ساتھ پہاڑ کی جانب شکار کو گئے۔ شکار کے دوران آپ اپنے والد سے علیحدہ ہوگئے اور پہاڑو کے درمیان ایک میدان تھا جہاں آپ کیا دیکھتے ایک پہاڑی پر چالیس مردان غیب کھڑے ہیں اور حضرت ابو اسحاق چشتی قدس سرہٗ ان کے درمیان میں ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ پر ایک حالت طاری ہو گئی اور گھوڑے سے اتر کر حضرت خواجہ ابو اسحاق کے قدموں میں گر گئے۔ گھوڑا اور اسلحہ اور تمام مشاغل و مرادات ترک کر کے اونی خرقہ پہن لیا اور رجال الغیب کے ساتھ چلے گئے۔ والد اور ان کے خدام نے جس قدر تلاش کیا کچھ پتہ نہ چلا۔ چند یوم کے بعد خبر ملی کہ آپ حضرت خواجہ ابو اسحق کے ساتھ اس پہاڑ میں فلاں پر موجود ہیں۔ والد نے چند آدمیوں کو بھیجا کہ ان کو گھر لے آئیں۔ انہوں نے بہت پندو نصیحت کی لیکن ناکام رہے۔
آپ کے ہاتھ پر والد کا تائب ہونا
جب سالک کو توحید میں فنا حاصل ہوجاتی ہے تو ہر گز نہیں ج اتی اس وجہ سے کہ فنا کا دور ہونا مقام دوئی میں ہوتا ہے اور یہاں دوئی کا نام و نشان نہیں تھا۔
چوں قطرہ غرق دری شد چہ باشد |
|
وجود قطرہ جزدریا نباشد |
(جب قطرہ دریا میں غرق ہوگیا تو پھر یہ ہوتا ہے کہ وجود قطرہ نہیں رہتا دریا بن جاتا ہے)
کہتے ہیں کہ آپ کی تربیت کے بعد حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی قدس سرہٗ ملک روم کی جانب چلے گئے اس کے بعد آپ چشت میں مسند خلافت پر بیٹے اور ایک جہاں آپ سے فیضیاب ہو اور بلند مقاصد کو پہنچا۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی سر حلقہ مشائخ اہل چشت ہیں اور بالاتفاق قطب ابدال تھےاور ساری دنیا پر آپ کا تسلب تھا۔ لطائف اشرفی میں لکھا ہے کہ حضرت ابو احمد ابدال سے لے کر آج تک ہمارے مشائخ چشت ابدال ہوئے ہیں اور ان سے کرامات وخوارق عالی ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ فقیر راقم الحروف کہتا ہے کہ، لطائف اشرفی کی اس عبادت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی قدس سرہٗ کے زمانے سے جتنے مشائخ چشتیہ ہو گذرے ہیں چونکہ ولایت محمدیہ کی جامعیت ان کو ورچہ میں ملی تھی اس لیے عصرحاضر تک ولایت کے جمعی مراتب ومناسب مثل قطبیت، فردیت، بدولیت تھی کیونکہ یہ اظہار کرامات وخوارق کا موجب ہے لیکن باقی مشائخ چشت جو اس نسبت سے مستشنیٰ ہیں ان میں سے بعض پر نسبت فرویت غالب تھی، بعض پر نسبت قطبیت اور بعض پر نسبت محبوبیت غالب تھی۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ ابو احمد چشتی قدس سرہٗ تیس سال تک نہ سوئے اور تیس سال باوضو رہے اور کبھی پانی سیر ہوکر نہ پیا آپ ہر شب بعد نماز تہجد دعا کرتے تھے کہ الٰہی امت محمدیہﷺ کے گناہگاروں کو بخش دے۔ غیب سے آواز آتی کہ اے ابو احمد! ہم نے تمہاری دعا قبول کی ہے اور امت محمدیہ کے دس ہزار گنہگاروں کو تیری بدولت ہم نے بخش دیا اور بہشت میں جگہ دی۔
سماع میں انہماک
آپ سماع میں بہت غلو فرماتے تھے اور ہر وقت سماع میں مشغول رہتے تھے حالت سماع جس شخص پر آپ کی نظر پڑتی صاحب کرامت ہوجاتا تھا اور جو کافر آپ کی خدمت میں آتا تھا مسلمان ہوجاتا تھا ہر مریض جس پر آپ کی نگاہ پڑی تھی اسی وقت تندرست ہوجاتاتھا۔ حالت سماع میں نور ساطع آپ کی جبیں مبارک سے اس قدر ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی روشنی آسمان تک پہنچ جاتی تھی۔ چنانچہ شہر کے اکثر لوگ اپنے گھروں م یں آپ کے نور جبیں کا مشاہدہ کرتے تو حاضر خدمت ہوجاتے تھے اور سمجھ جاتے تھے کہ آج حضرت اقدس سماع سن رہے ہیں۔ پس ہر طرف سے لوگ دوڑ دوڑ کر آتے تھے اور مجلس میں شریک ہوتے۔
علماء کا مناظرہ اور پھر مرید ہونا
یہ دیکھ کر چند علمائے ظواہر کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اورآپ کے ماموں امیر نصیر حواس وقت ملک شام کے بادشاہ تھے کے پاس جاکر شکایت کی کہ آپ کے بھانجے نے بدعت سماع کھڑی کر رکھی اور خلق خدا کو گمراہ کر رہا ہے۔ آپ اس کو اپنی دربار میں طلب کریں تاکہ ہمارے ساتھ وہمناظرہ کرے۔ اگر وہ راہ راست پر ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ورنہ اسے اس کام سے منع کردیا جائے۔ بادشاہ نے کسی آدمی کے ذریعے آپ کو طلب کیا۔ حضرت خواجہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو خرقہ پہنا گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایک خادم کو جس کا نام محمد خدا بندہ تھا اور سورت فاتحہ اور اخلاص کے سوا کچھ نہیں جانتا تھا ساتھ لے کر امیر نصیر کی دربار میں پہنچ گئے جہاں اطراف وجواب کے اسی علمائے متحر جمع تھے۔ ان لوگوں نے بادشاہ سے استدعا کی تھی کہ جب خواجہ صاحب آئیں تو ان کی طرف مطلقاً توجہ نہ کریں۔جب حضرت خواجہ وہاں پہنچے تو آپ کی عظمت اور دہشت سے بادشاہ اس قدر متاثر ہوا کہ بیٹھ نہ سکا اور اٹھ کر دروازہ تک استقبال کیا۔ آپ کا ہاتھ چوم کر اغرار واکرام کے ساتھ مجلس کی صدارت پیش کی۔ علماء نے چرب زبانی سے کام لیا اور مشکل سے مشکل سوالات پیش کیے۔ آپ نے اپنے خادم محمد فدا بندہ نے اسی مشکل سوالات کے جواب کتب متداولہ کے مطابق دے دیئے۔
اس کے بعد ایک مسئلہ خودان سے دریافت کیا لیکن وہ تمام علمائے اس کے جواب سے عاجز آگئے اور شرم سار ہوئے۔ بادشاہ نے یہ حالت دیکھ کر مذاق کے طور پر علماء سےکہا کہ اگر اب بھی کوئی سوال باقی ہو تو خاموش نہ رہو۔ لیکن علماء کچھ نہ کہہ سکے۔ کیونکہ علم لدنی کے مقابلہ میں وہ کیا کر سکتے تھے۔ جب حضرت شیخ نے ان پڑھ خادم کا مقابلہ نہ کر سکے تو آپ کا مقابلہ کہاں کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان تمام علماء نے اپنے دستار گردن میں ڈال کر حضرت خواجہ کے پاؤں پر گر گئے۔ معافی طلب کی۔ توبہ کی اور مرید ہوگئے امیر نصیر نے آپ سے معافی چاہی اور حضرت کی خدمت میں بے شمار تحائف پیش کیے۔ لیکن آپ نے کوئی چیز قبول نہ فرمائی اور واپس آستانہ مبارک پر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ کی ولایت کی بہت شہرت ہوئی اور ہر طرف سے لوگ جوق در جوق آکر مرید ہونے اور فیض حاصل کرنے لگے۔
ذوق سماع
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت اقدس نیا کپڑا ہر گز نہیں پہنتے تھے اور نہ ہی دنیا داروں کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔ آپ حافظ کالم ربانی تھے۔ خواجہ سری سقطی قدس سرہٗ اکثر آپ کی ملاقات کےلیے آیا کرتے تھے اور آپ کی مجالس سماع میں شریک ہوا کرتے تھے۔ آپ کی مجالس سماع میں حاضرین پر عجیب مستی اور مدہوشی کی حالت طاری ہوجاتی تھی۔ قوالوں پر ایسے ذوق وشوق کی حالت طاری ہوجاتی تھی کہ منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتی تھی۔ اور مسد و بے خود ہاجاتے تھے اور قوالوں کو قوالی کی آواز غیب سے سنائی دیتی تھی۔ جس سے ان پر حالت وجد طاری ہوجاتی تھی۔ مجتہدین وقت میں سے کسی کو آپ کے سماع پر اعتراض کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ وقت کے علماء وصلحاء آپ کا کلام سن کرونگ رہ جاتے تھے اور آپ کی بے حد عزت وتکریم کرتے تھے آپ ہر روز ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے۔ جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا آپ کے نور جبیں کو دکھ کر حیران ہوتا تھا۔ جب فضل بن یحییٰ بر مکی[1] نے آپ کے سماع پراعتراض کیا اور آپ کو اس کا علم ہوا تو فرمایا کہ اگر وہ ناحق اعتراض کرتتا ہے تو سزا پائے گا چنانچہ اس کے فوراً بعد بیمار ہوا۔ اطباء نے جس قدر علاج کیا مرض بڑہتا گیا۔ جب لا علاج ہوا تو حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوا۔ ایک رات اسے آں حضرتﷺ کے جمال جہاں آراء کی زیارت کا شرف ہو ا تو شفا کے لیے عرض کی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا اے فضل تم نے ابو احمد چشتی کے سماع کا انکار کیا ہے اور اس کا انکار اس کے مشائخ کا انکار ہے جب تک تم توبہ کر کے اس کی مجلس سماع میں حاضر نہیں ہوگے شفا ممکن نہیں۔ فضل بیدار ہوتے ہی دوڑتا ہوا حضرت اقدس کی خدمت حاضر ہوا اتفاق سے اس وقت آپ مجلس سماع میں تھے۔ فضل وہاں جاکر وستہ بستہ ہوکر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ اتفاق سے ح ضرت شیخ کا وہاں سے گذر ہوا۔ اسے دیکھتے ہی آپ نے تبسم فرمایا اور فرمایا کہ اے فضل تم نے دیکھ لیا کہ سماع سے انکار کی سزا کیا ہے اس نے عرض کیا کہ میں قصور وار ہوں اور سزا پا چکا ہوں حضرت مخدوم کا یہ سماع اسرار الٰہی ہے۔ اس کے بعد حضرت اقدس ن ے اپنا دست شفقت اس کے سر پر رکھا۔ اس سے وہ فورا تندرست ہو ہوگیا۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا کبھی بیمارہی نہیں ہوا تھا۔ یہ کرامت دیکھ کر سات سو کافر مسلمان ہوگئے ار ان میں سے ہر ایک بلند مرتبہ کو پہنچا۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن آپ دریائے دجلہ کے کنارے تشریف لے گئے ۷۹آدمی آپ کے سات تھے لیکن کشتی موجود نہ تھی۔ آپ نے فرمایا آؤ حلقہ ذکر قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ ذکر کرتے ہوئے۔ سب دریائے دجلہ کے پار پہنچ گئے اور کسی کا پاؤں بھی تر نہ ہوا اس وقت وہاں چوبیس کافر موجود تھے۔ یہ کرامت دیکھ کر سب مسلمان ہوگئے۔ ان کو بھی آپ نے اسی طرح پانی سے گذرا۔ وہ ب ھی تھوڑے عرصہ میں مرتبہ کمال کو پہنچے۔
اس کتاب میں یہ بھی مرقوم ہے کہ ایک دن حضرت اقدس راستے میں جارہے تھے اور ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں تمام کافر آباد تھے اور جو مسلمان وہاں جاتا تھا۔ان کے ڈر سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کرتا تھا۔ اگر ان کو معلام ہوجاتا کہ یہ مسلمان ہے تو بہت شدت سے پیش آتے تھے اور آگ میں جلادیتے تھے جب آپ وہاں پہنچے تو کافروں نے دورک کر آپ کو پکڑلیا اور کہنے لگے کہ کیا تم مسلمان ہو۔ آپ نے فرمایا ہاں مسلمان ہوں ۔ انہوں نے کہا ہم ہر گز مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑتے لیکن اگر تم ہماری گرفت سے بچ سکتے ہو تو ہم یقین کریں گے کہ واقعی تم مسلمان ہو آپ نے فرمایا کہ اگر مسلمان صدق دل سے لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دے تو اس پر آگ ہر گز اثر نہیں کرتی چنانچہ انہوں نے آگ جلائی اور حضرت اقدس فوراً اس کے اندر چلے گئے اور مصلے بچھاکر نماز میں مشغول ہوگئے۔ اس سے آتش سوزاں فوراً ٹھنڈی ہوگئی۔ یہ دیکھ کر کافروں نے اپنے سرزمین پر رکھ دیئے ور صدق دلس ے سب مسلمان ہوگئے۔ اس بستی میں کل دس ہزار مرد تھے ان میں سے سو آدمیوں نے حضرت شیخ کی صحبت اختیار کرلی اور ہر شخص ولی کامل بن گیا۔ باقی لوگوں نے آپ کے فرمان کے مطابق اسی جگہ سکونت رکھی اور قبیہ عمر عبادت میں بسر کردی۔
وصال
مراۃ الاسرار میں آیا ہے کہ حضرت خواجہ ابو احمد چشتی قدس سرہے کی عمر پچانوے سال تھی۔ آپ کی ولادت خلیفہ معتصم باللہ جو بنی عباس کا آٹھواں خلیفہ تھا کے زمانہ حکومت میں بتاریخ سوم جمادی الثانی ۲۶۰ھ میں ہوئی اور آپ کا وصال چوبیسویں خلیفہ ابو بکر عبدالکریم بن مطیع جس کا لقب طالع تھا کے عہد حکومت میں ۳۵۵ھ میں ہوئی۔ آپ کا مدفن قصبہ چشت ہے جو ہرات سے تیس کوس کے فاصلہ پر ہے۔ صاحب سیر الاقطاب نے آپ کی تاریخ وصال یہ ن کالی ہے: قطب العالمین بود۔
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
[1] ۔ بر مکی خاندان خلفائے بنی عباس کے عہد میں یکے بعد دیگر عہدہ وزارت پر فائز رہے۔ علم و فضل میں بڑے مشہور تھے۔
(اقتباس الانوار)