حضرت خواجہ محمد فیض اللہ تیراہی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: خواجہ محمد فیض اللہ۔لقب: شیخ العارفین۔ علاقہ تیراہ کی نسبت سے’’تیراہی‘‘ کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: خواجہ محمد فیض اللہ بن خان محمد بن علی محمد بن شیخ سلیمان بن سلطان شیخ الاسلام بن عبدالرسول بن عبدالحئی بن شیخ محمد بن شیخ حبیب اللہ بن شیخ امام رفیع الدین بن شیخ نصیر الدین بن شیخ سلیمان بن شیخ یوسف بن شیخ اسحاق بن شیخ عبداللہ بن شیخ شعیب بن شیخ احمد بن شیخ یوسف بن شیخ شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی بن شیخ نصیر الدین بن شیخ محمود بن شیخ سلیمان بن شیخ مسعود بن شیخ عبداللہ (الواعظ الاصغر) بن شیخ عبداللہ (الواعظ الاکبر) بن شیخ ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ ناصر بن شیخ عبداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عبداللہ بن سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔آپ کا شجرۂ نسب 34 واسطوں سے خلیفہ دوم امیر المؤنین سیّدنا عمر فاروق اعظم ٰ عنہ سے ملتا ہے۔(تاریخ مشائخِ نقشبند:456)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1143ھ مطابق 1730ء کو تیزئی شریف نزد وادیِ تیراہ(اس وادی کا اکثر کاحصہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر مشتمل ہے،اور کچھ حصہ افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں ہے)میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ کا خاندان ایک علمی وروحانی خاندان تھا۔درس وتدریس وعظ ونصیحت ان کاآبائی سلسلہ تھا۔آپ کے والد ماجد حضرت قاضی خان محمد موضع شادی خیل نزد شہر کوہاٹ(سرحد) میں درس دیا کرتے تھے اور فتویٰ نویسی میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ فنِ تحریر میں اُن کا کوئی ثانی نہ تھا۔ عالم اجل اور فاضلِ بے بدل تھے۔ حلقہ درس و تدریس اتنا وسیع تھا کہ دُور دُور سے لوگ آکر استفادہ کرتے تھے۔ آپ نے بھی علومِ متداولہ کی تعلیم والد ماجد سے حاصل کرکے اکیس سال کی عمر میں فراغت حاصل کرلی۔
بیعت وخلافت: آپ کی بیعت وتلاش مرشد کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔آپ علومِ ظاہری سے فارغ ہونے کے بعد علومِ باطنی کے حصول کے لیے پیرِ کامل کی تلاش شروع فرمائی۔ چونکہ آپ شریعت مطہرہ پر سختی کے ساتھ پابند تھے اور خلافِ شرع ذرّہ برابر بھی بات گوارا نہ تھی لہذااس پر عمل پیرا ہو کر تلاش میں نکلے۔ ایک بزرگ کی شہرت سُن کر اُن کی زیارت کےلئے گئے۔ وہ اُس وقت نماز میں مشغول تھے اور اُن کے پاؤں کا درمیانی فاصلہ حدِ شرع کے خلاف تھا۔ آپ یہ دیکھ کر برداشت نہ کرسکے اور اُلٹے پاؤں واپس آگئے اور فرمایا کہ جس فقیر میں شرع کی پابندی نہیں ہے وہ مجھے کیا فیض پہنچائے گا۔ بعد ازاں ایک بزرگ کا شہرہ سُن کر وہاں گئے تو دیکھا کہ اُس کے مرید بھنگ رگڑ رہے ہیں اور آپ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ’’آؤ بابا! خوب وقت پر آئے‘‘۔ وہ فقیر صاحبِ کشف تھے، یہ سُن کر آپ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ بھائی ان کو مت پلاؤ۔ یہ تو نماز میں پاؤں کے خلافِ شرع معمولی فاصلہ سے بھاگے ہیں یہاں تو فرسنگوں اور کوسوں کا فاصلہ ہے۔ یہاں یہ کیوں کر آنے لگے ہیں۔ ان کا حصّہ تو حافظ محمد جمال اللہ رام پوری صاحب کے پاس ہے۔
حضرت شاہ جمال اللہ رام پوری کی خدمت میں: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرّہ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی کے حملہ کی خبر سُن کر آپ نے فنون سپہ گری کی تربیّت حاصل کی اور احمد شاہ ابدالی کی فوج میں بھرتی ہوگئے۔ نہایت ہی قلیل عرصہ میں سپہ سالاری کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوکر قلعۂ رام پور میں تعینات ہوگئے۔ ماہانہ تنخواہ کا اکثر حصہ فقراء و صلحاء کی خدمت میں نذر کردیتے تھے۔ اپنی گوناگوں خوبیوں اور قدسی صفات کی بدولت ادب و احترام کے مستحق گردانے جاتے تھے اور ہر کوئی دیدہ و دل فرشِ راہ کرتا تھا۔ ایک دن حضرت اقدس (شاہ جمال اللہ) قلعہ کی سیر کو نکلے تو اُن کے ساتھ بہت سے خلفاء و مریدین تھے۔ جب آپ نے حضرت اقدس شاہ جمال قدس سرّہ کو ایک نظر دیکھا تو دل کا دروازہ کھل گیا۔ دل کا دروازہ کھلنا ہی کرم کی علامت ہوتی ہے۔ کرم کا ہاتھ اٹھا اور صدا مقبول ہو گئی۔ فوراً قلعہ کی دیوار سے اُترے اور حاضر خدمت ہوکر سر قدموں میں رکھ دیا۔ بے ہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے تو عجیب کیفیت تھی۔
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہونے کی استدعا کی۔ میخانۂ مرشد سے ایک لازوال نشہ اور سرشاری عطا ہوئی۔ بیعت کرنے کے بعد شاہ جمال اللہ قدس سرّہ نے آپ کو حضرت شاہ محمد عیسیٰ کے سپرد کردیا کہ اس کی تکمیل تمہارے ذمّے ہے۔کچھ عرصہ بعد حضرت خواجہ محمد عیسیٰ قدس سرہ اپنے وطن مالوف واپس ہوئے تو خواجہ محمد فیض اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت شاہ جمال اللہ قدس سرہ کی خدمت میں حاضر باشی پر مامور کردیا۔ آپ نے ملازمت کو خیر باد کہہ دیا اور ہمہ تن مرشدِ گرامی کی خدمت میں کمر بستہ ہوگئے۔ چار سال خدمت میں رہنے کے بعد حضرت شاہ جمال اللہ نے آپ کو وطن واپس جانے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اس طرح آپ تقریباً اٹھارہ سال بعد وطن واپس آئے تو کوہاٹ شہر کے نواحی گاؤں ڈوڈہ(دادر شریف) میں تشریف لائے جہاں، آپ کے بزرگوں کے واقف کار لوگ رہتے تھے۔ اُن دنوں وہاں تپ شدید کی وبا پھیلی ہوئی تھی بدیں وجہ خلقت نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر تعویذات و دم کرانا شروع کردیا۔ جو کہ بہت اثر پذیر ثابت ہوا۔ آپ وہاں چھ ماہ ٹھہرے اور خلقِ خدا کو ظاہری و باطنی فیض سے نوازا۔
سیرت وخصائص: صاحبِ فیضِ اثر،عالم وعارفِ اکمل،شیخ العلماء والصلحاء،قدوۃ الاولیاء حضرت خواجہ محمد فیض اللہ تیراہی۔آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کےعظیم روحانی شیخ ہیں۔سلسلہ عالیہ کےفروغ میں آپ کا اہم کردار ہے۔بالخصوص سرحد،افغانستان،اور شمالی مغربی علاقہ جات میں اس سلسلے کو عام کیا۔آپ کے فیض سےایک کثیر مخلوق خدا فیض یاب ہوئی۔فساق وفجار آپ کی دعوت وارشاد سے تائب متقی فرمانبردار بن گئے۔دین اسلام کی خوب خدمت فرمائی۔آپ کےوالد گرامی اپنے علاقے کےعالم ربانی تھے،درس وتدریس ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ان علاقوں کے اکثر جید علماء آپ کے والد صاحب کے شاگردتھے۔
شادی ونکاح: آپ رام پور سے واپسی پر کوہاٹ تشریف لائے،اور دورانِ قیام قاضی عبدالحمید مفتیِ علاقہ کوہاٹ نے اپنی صاحبزادی آپ کے نکاح میں دینے کی خواہش ظاہر کی جو علم فقہ و حدیث میں مہارتِ تامہ اور یدِ طولیٰ رکھتی تھی۔ آپ نے ارشاد کیا کہ میں آج استخارہ کروں گااور مجھے جو کچھ حکم ہوگا، اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔ چنانچہ آپ کو استخارہ میں ارشارہ ہوا کہ یہ نکاح سرزمینِ ہند کے لیے باعثِ برکت و رحمت ہوگا اور اس کے نُور سے ارد گرد کے ملکوں میں اسلام کی روشنی پھیلے گی چنانچہ استخارے کی یہ خبر سُن کر مفتی صاحب خوش ہوئے اور آپ سے اپنی لڑکی کا نکاح کردیا۔ پھر آپ اپنے گھر تیزئی شریف علاقہ تیراہ(افغانستان) تشریف لے گئے۔
آپ کی پہلی بیوی جو کہ آپ کے والد مکرّم کی حیاتِ مبارکہ میں نکاح میں آئی تھیں، کے بطن سے ایک لڑکی تھی جو اب انیس برس کی ہوچکی تھی۔ جب آپ اپنے مکان پر پہنچے تو پہلی تو پہلی بیوی نے اٹھارہ برس کی طویل مدّت کے بعد آپ کو دیکھا تو پہنچاننے سے انکار کردیا کہ آپ جوانی کے عالم میں لباسِ سپہ گری میں گھر سے روانہ ہوئے تھے اور ڈاک کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے اپنی خیریّت کی کوئی اطلاع گھر نہ دے سکے تھے۔ پہلی بیوی نے کہا کہ میں کیسے یقین کروں کے آپ میرے خاوند ہیں۔ میں غیر محرم کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
اسی طرح تین ماہ تک آپ اپنی چھوٹی بیوی صاحبہ کے ہمراہ دوسری جگہ اُسی گاؤں میں رہے۔ اتفاقاً ایک دن ایک جنازہ پر مولوی شیر محمد رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوگئی جوکہ ایّام تعلیم میں آپ کے ہم درس رہے تھے۔ آپ نے مولوی صاحب کو تمام ماجرا سنایا کہ قدرتِ الٰہی ہے کہ کوئی شخص مجھے پہچان نہیں رہا ہے۔ اور تو اور بیوی نے بھی پہچاننے سے انکار کردیا ہے اور مجھے غیر محرم گردانتے ہوئے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اب اپنے ہی گاؤں میں ایک مسافر کی سی زندگی بسر کر رہا ہوں۔مولوی شیر محمد رحمۃ اللہ علیہ نے گاؤں کے لوگوں کو اکھٹا کیا اور بتایا کہ یہ خواجہ محمد فیض اللہ ہی ہیں۔ میں نے عرصہ تک اِن کے والد بزرگوار کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہ کیا ہے اور یہ میرے ہم سبق رہے ہیں۔ یہ سن کر سب لوگوں کو تصدیق اور اطمینان ہوا اور آپ کی پہلی بیوی نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ اور سب خوش و خرم رہنے لگے۔ دونوں بیویاں باہم شیر و شکر ہوگئیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ فرزندوں سے نوازا جو سب برگزیدہ اور صاحب باطن تھے خواجہ نور محمد، خواجہ گل محمد، خواجہ جان محمد، خواجہ صالح محمد، خواجہ محمد نور رحمۃ اللہ علیہم۔
اللہ جل شانہ نے آپ کو روحانیت علم اور تقویٰ کے ساتھ ساتھ ایسے کمالات عطاء فرمائے تھے،جن سے اکابر صالحین کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔آپ اپنی کرامات کو بہت پوشیدہ رکھتےتھے۔اس کےباوجود آپ کی بہت سی کرامات زبان و عام ہیں۔
خشک درخت سرسبز ہوگیا: ایک دفعہ دورانِ سفر آپ تھک کر بیٹھ گئے۔ چند مسافر اور بھی آکر وہاں ٹھہر گئے اور آپس میں باتیں کرنے لگے۔ اُن میں سے ایک نے آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کون شخص ہے؟ دوسرے نے کہا کہ کوئی فقیر و درویش ہوگا! تیسرے نے کہا کہ اگر یہ فقیر ہوتا تو وہ سامنے والا خشک درخت، سر سبز نہ ہوجاتا۔ یہ سن کر آپ نے دعا فرمائی تو وہ درخت اسی وقت سر سبز و شاداب ہوگیا۔ پھُول پھل بھی لگ گئے۔(2)تیزئی شریف میں مسجد کے قریب ایک بلند چبوترے پر زیتون کے دو بڑے موٹے موٹے درخت تھے جو کہ عرصۂ دراز سے خشک ہوگئے تھے۔ آپ نے ان درختوں کے سہارے بیٹھ کر مطالعہ فرمایا کرتے تھے اور جب کبھی پانی نوش فرماتے تو باقی ماندہ پانی اُن کے دامن میں ڈال دیتے تھے۔ آپ کی برکت سے دونوں درخت ایک ماہ کے اندر اندر سر سبز و شاداب ہوگئے اور اب تک اُسی حالت میں موجود ہیں۔ ہزاروں لوگ زیارت کرچکے ہیں۔
آپ کی برکت سے پانی کا چشمہ ظاہر ہوا: پانی کی سخت قلّت و تکلیف کی وجہ سے تیزئی شریف کے لوگوں نے عرض کیا کہ دعا فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کہیں سے چشمہ نکل آئے۔ آپ نے ایک درخت کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ جگہ کھودو۔ حسب الحکم عمل کیا گیا۔ ابھی چند گز ہی زمین کھودی گئی تھی کہ آبِ شیریں کا چشمہ نمودار ہوا۔ یہ دیکھ کر سب لوگ آپ کے کشف و کرامات کے قائل ہوگئے اور بہت سے مخالف لوگ بھی حلقہ میں داخل ہوکر سعادتِ بیعت سے مشرف ہوئے۔ وہ چشمہ تاحال جاری و ساری ہے۔
آپ نے اپنی زندگی مبارک کا بیشتر حصہ دور رداز کے سفر میں گزارا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر سعادت دین و دنیا سے مشرف ہوئے۔ آخری عمر میں کمزور ہوگئے تھے جس کی وجہ سے پالکی میں سوار ہوکر سفر فرمایا کرتے تھے۔ زبانِ اقدس میں اتنی تاثیر تھی جو کچھ بھی ارشاد فرماتے پُورا ہوجاتا اور نہایت شیریں اور شخصیّت جاذبِ نظر تھی۔ اکثر لوگ تو روئے انور کو دیکھ کر ہی بیعت کرلیتے تھے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 8/ربیع الاول 1245ھ مطابق اوائل ماہ ِستمبر/1829ء کوتیزئی شریف وادیِ تیراہ افغانستان میں ہے۔
ماخذ ومراجع: تاریخ مشائخِ نقشبند۔