حضرت خواجہ حسن عطار رحمتہ اللہ تعالٰی
آپ خواجہ علاؤالدین عطارؒ کے فرزند ہیں۔آپ کی ولایت کے شجرہ کا ثمرہ جذبہ قویٰ رکھتا تھا۔جذبہ کی صفت سے جس میں چاہتے تھے تصرف کیا کرتے تھے"اور اس کو اس جہان کے حضور اور شعور کے مقام سے بے خودی اور بے شعوری کے مقام تک پہنچادیتے تھے۔بعض اہل سلوک کو جو ذوق غیبت ۔۔۔۔
حضرت خواجہ حسن عطار رحمتہ اللہ تعالٰی
آپ خواجہ علاؤالدین عطارؒ کے فرزند ہیں۔آپ کی ولایت کے شجرہ کا ثمرہ جذبہ قویٰ رکھتا تھا۔جذبہ کی صفت سے جس میں چاہتے تھے تصرف کیا کرتے تھے"اور اس کو اس جہان کے حضور اور شعور کے مقام سے بے خودی اور بے شعوری کے مقام تک پہنچادیتے تھے۔بعض اہل سلوک کو جو ذوق غیبت فنا بہت سے مشاہدہ کے بعد بھی اتفاقاً ہوا کرتا ہے چکھا دیا کرتے تھے۔تمام مادراء النہر خراسان کے علاقہ میں آپ کے تصرف کی کیفیت طالبین اور زائیرین میں مشہور تھی۔جو شخص آپ کے ہاتھ پر بوسہ دیتا"وہ گر پڑتا۔اس کو غیبت بے خودی کی دولت حاصل ہو جاتی۔ایسا سنا گیا ہے کہ ایک دن صبح کے وقت آپ گھر سے باہر نکلے۔آپ پر کیفیت غالب ہوئی۔جس شخص کی نگاہ آپ پر پڑتی سب کو بے خودی کی کیفیت ہوتی"اور گر پڑتا۔ایک درویش سفر مبارک کے ارادہ سے ہرات میں پہنچا"اس پر جذبہ غیبت بے خودی حیرت کے آثار ظاہر تھے۔کبھی بازاروں میں گشت لگاتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ اس کو باطنی امر نے پکڑرکھا ہے۔لوگوں کی آمد و رفت اور ان کی گفتگو کا اس کو چنداں شعور نہ تھا۔اس سلسلہ کے ایک بزرگ عزیز نےجن کی خدمت میں"میں جایا کرتا تھا۔اس کی بابت پوچھا:
آپ نے فرمایا" کہ اس درویش کا کام اس سے بڑھ کر نہیں کہ ہمیشہ خواجہ حسن کی صورت کا رکھتا ہے"اوراسی کو یاد رکھتا ہے۔اس نگہداشت کی برکت سے ان کے جذبہ کی صفت اس میں اثرکرگئی ہے۔خواجگان کے بریق کے مطابق کبھی شفا خانہ میں آتے اور ان کی بیماری کو اٹھا لیا کرتے ۔جب سفر مبارک کے قصہ سے شیراز میں تشریف لائے تو وہاں کے ایک بڑے عالم (یعنی مولانا جا لال الدین بہبانی) کہ جن کو آپ کی نسبت بہت ہی حسن اخلاص تھابیمار ہوگئے۔خواجہ بزرگ ان کے پاس آئے"وہ عزیز تو تندرست ہوگیااور خواجہ بیمار پڑگئے۔اسی بیماری میں آپ کا انتقال ہوا۔آپ کا انتقال پیر کی شب عید قربان ۸۲۶ھ میں ہوا ہے۔آپ کی نعش مبارک کو شیراز سے ضعانیاں مین لائے۔جہاں آپ کے والد ماجد کا مزار ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)