حضرت ابراہیم بلخی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت ابراہیم بلخی رحمۃ اللہ علیہ۔لقب: رئیس الاصفیاء،سند الفقہاء۔بلخ کی نسبت سے"بلخی"کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابراہیم بن یوسف بن میمون بن قدامہ بلخی ۔علیہم الرحمہ۔آپ کا خاندان صوفیاء وصلحاء کا خاندان تھا۔جس میں بڑے شیوخ وعلماء پیدا ہوئے۔
مقامِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت تقریباً دوسری صدی ہجری کےآخر میں "بلخ"ایران میں ہوئی۔
تحصیل علم: ابتدائی اپنے علاقے میں حاصل کی۔پھر اعلی تعلیم کےلئے عراق کا سفر کیا کیونکہ اس وقت عراق کےبہت سے شہر علوم کےبہت بڑے مراکز تھے۔بغداد ،کوفہ،بصرہ میں بڑےآئمہ علم کےجام لٹا رہےتھے۔آپ ایک مدت تک تلمیذ امام اعظم،فقیہ اعظم،قاضی القضاۃ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کےسامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔انہیں کی صحبت وشاگردی کی نسبت سےاصحاب امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتےتھے۔علم دین میں لگن اور محنت کی بدولت اپنے معاصرین سےسبقت لےگئے۔آپ کاشمار جیدفقہاء وعلماء،اورصوفیاء میں ہوتا تھا۔حضرت امام مالک علیہ الرحمہ سےشرف تلمذ حاصل ہے۔صرف ایک حدیث ان سے سماعت کرسکے:" عن مالک عن نافع عن بن عمر رضی اللہ عنہم کل مسکر خمرو کل مسکر حرام"۔ سبب یہ ہو اکہ جب آپ امام مالک کے پاس حدیث سننے کےلیے آئے تو وہاں قتیبہ بن سعید موجود تھے جنہوں نے امام مالک سے کہہ دیا کہ یہ شخص ارجاء (یعنی فرقہ مرجیہ سے اسکا تعلق ہےغلط نسبت ظاہر کردی،بہتان لگادیا،حالانکہ آپ فقیہ،محدث،صوفی تھے۔)ظاہر کرتا ہے۔پس انہوں نے آپ کواپنی مجلس سے اٹھا دیا جس سے آپ ان سے صرف یہی ایک حدیث سماعت کر سکے ۔اسی طرح آپ نے سفیان بن عیینہ ،امام وکیع،امام اسمعیل بن علیہ اور حماد بن زید سےعلم حدیث حاصل کیا۔
سیرت وخصائص:امام العلماء،رئیس الفقہاء،سند الاتقیاء،فقیہ،محدث،متکلم،صوفی،ادیب،اپنے وقت کے شیخ اجل امام اکمل محدث ثقہ صدوق حضرت شیخ ابراہیم بلخی رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے اصحاب میں آپ کو بڑی عزت و حرمت حاصل تھی،مدت تک امام ابو یوسف کی صحبت میں رہے،ان کی صحبت نےآپ کونیرتاباں بنادیا۔آپ نہایت متقی صوفی ِ باصفا تھے۔آپ کا دستو ر تھاکہ روزانہ بعد نماز فجر بلخ کے آس پاس گشت کرتے اور جو قبر گِری ہوئی دیکھتے اس کی اپنے ہاتھ سے مرمت کرتے اور راستوں اور پلوں کو صاف و درست کرتے ۔ویرانہ میں ایک مسجد تھی وہاں آپ ہمیشہ ظہر کے وقت جاکر آذان کہتے اور شہر کے فقہاء،قضاۃ،اور عابدو ہاں جمع ہو کر آپ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ آپ ہمہ وقت مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف رہتےتھے۔انسان توانسان جانور اور پرندوں تک کاخیال رکھتےتھے۔کسی امیر،وزیر،بادشاہ،خلیفہ سےنہ ملاقات کرتے اور نہ ہی ان کی دعوت قبول کرتے۔جس نےآپ سےملاقات کرنا ہوتی،یامسئلہ معلوم کرنا ہوتا،یادعا وغیرہ تو آپ اس کو ویرانے کی مسجد میں بوقت نمازِ ظہر مسجد شریف میں مل سکتےتھے۔امامت خود کرواتےتھے۔
ایک دفعہ بلخ کے امیر نے فقہاء سے کہا کہ میں تمہارے شیخ سے چند امور دریافت کر نا چاہتا ہوں مگر کیاکروں کہ وہ میرے پاس آتے ہی نہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تمھارے پاس کیا بلکہ کسی کے پاس بھی نہیں جاتے ۔ اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کے پاس خود جاؤں ۔ انہوں نے کہا کہ یوں تو وہ تجھ سے بات بھی نہیں کرینگے ، اگر تم ظہر کے وقت اس ویران مسجد میں آؤ او رنماز کےبعد ان سے یرحمک اللہ کہ کر بات کرو تو امید ہے کہ شاید تمھاری طرف متوجہ ہوجائیں۔اس نے ایسا ہی کیا اور اپنی مشکلا ت عرض کی اور حضرت شیخ نے اس کی مشکل حل فرمادی۔پھر وہ گویا ہواکہ میں بلخ کا حاکم ہوں اگر آپ کی کچھ حاجت ہو تو آپ بلا تامل ارشاد فرمائیں ۔شیخ یہ سن کر روپڑے اور کہا میرا اندرکا تمام خون پانی ہو گیا ہے کہ میں نے تیرے ایک سپاہی کو دیکھا ہے کہ اس نے اپنے باز کو ایک کبوتر پر چھوڑا ، جس کے چنگل کے صدمے سے وہ بےچارہ خاک میں لوٹ رہا تھا اور تڑپ رہا تھا۔لیکن اس سپاہی کو رحم نہیں آیا۔حاکم نے یہ سن کر اسی وقت حکم عام جاری کردیا کہ آئندہ کوئی شخص باز یا کتا وغیرہ شکاری جانور اپنے پاس نہ رکھے ،اور نہ ہی جانوروں پرندوں پر کوئی ظلم کرے۔منقول ہے کہ جب آپ نماز کے لئے باہر تشریف لاتے تو کاغذوقلم بھی ساتھ ہوتاتھا،کہ راستے اگر کوئی مسئلہ معلوم کرے توفوراً اس کو لکھ کردیدوں،تاکہ اس کوانتظار نہ کرنا پڑے۔امام نسائی اپنی تصنیف لطیف"سنن نسائی"میں آپ سے روایت کیا ہےاورثقہ،صدوق،صاحب التقویٰ کےشاندارالفاظ سےآپ کی توثیق اور خراج تحسین پیش کیا ہے۔
تاریخ ِوصال: آپ کا وصال 11/شعبان المکرم241ھ،ماہ دسمبر855ءکو ہوا۔"قلزم دین"آپ کی تاریخ وفات ہے۔
ماخذومراجع: حدائق الحنفیہ۔