حضرت خواجہ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:ابراہیم۔کنیت:ابواسحق ۔القاب:مفتاح العلوم،سلطان التارکین،سیدالمتوکلین،امام الاولیاء۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: سلطان ابراہیم بن ادہم بن سلیمان بن منصوربن یزیدبن جابر۔(علیہم الرحمہ)
ولادت با سعادت: آپ کی ولادت باسعادت بلخ (افغانستان)میں ہوئی۔
تحصیل علم: شاہی خاندان سےتعلق تھا،شہزادے تھے،ابتدائی تعلیم شاہی محل میں ہوئی،جب خداطلبی میں بادشاہت کوترک کرکےمکۃ المکرمہ پہنچے،وہاں کےمشائخ سے تحصیل ِعلم کیا۔وہاں سےبغداد،بصرہ،کوفہ،بلادِشام کاسفرکیا۔آپ نےجلیل القدر مشائخ خواجہ فضیل بن عیاض، امام باقر،سفیان ثوری ،خواجہ عمران بن موسیٰ ، شیخ منصورسلمی،خواجہ اویس قرنی ،حضرت امام اعظم ابو حنیفہ،حضرت جنید بغدادی (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) سےعلم حاصل کیا اور انکی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔جنید بغدادی آپ کو"مفاتیح العلوم"فرماتے۔حضرت امام اعظم آپ کو "سیدناوسندنا "کہہ کر پکارتےتھے۔آپ کاشماراپنےوقت کےبڑےمحدثین،مفسرین،اورفقہاء میں ہوتاتھا۔
بیعت وخلافت:آپ حضرت خواجہ فضیل بن عیاض علیہ الرحمہ کے دست ِحق پرست پر بیعت ہوئےاور انہی سے خرقہ خلافت پایا۔انکےساتھ ساتھ حضرت امام باقر،حضرت خواجہ عمران بن موسٰی،شیخ منصورسلمی،اورخواجہ اویس قرنی سےبھی خرقہ خلافت پایا۔
سیرت وخصائص: سیدالاصفیاء،سلطان التارکین،سلطان السالکین،مقرب حضرت رب العالمین ،مملکت دنیا کےتارک ،سلطنت عقبیٰ کے صاحب،ظل الٰہی،آں جالسِ سیراولیائی،آں متلبس بہ لباس پارسائی،مصدق و متوکل علی اللہ،واصل بہ نہایات فنافی اللہ حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہم قدس سرہ کا شمارحضرت خواجہ فضیل بن عیاض کےاکابر خلفاء میں ہوتا ہے۔آپ پیران ِکبار،اولیاء نامدار، مشائخ عظام اور مقتدایان ذوالاحترام میں سےشمار ہوتے ہیں۔دولتِ علم سےمالامال،معرفت وطریقت میں باکمال،آسمانِ ولایت کےگوہرِتابدارتھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ بلخ کےبادشاہ تھےمگرانھوں نےتمام عیش و عشرت کوچھوڑکرخداطلبی کی راہ اپنا لی اور تارک الدنیا ہوگئےاورصحرا نوردی کرتےہوئے مکۃ المکرمہ پہنچ گئے۔ آپ کیا سفر اور کیا حضر ہر وقت روزے سے رہتے اور راتوں کو قیام و نماز میں بسر کیا کرتے تھے۔ ہمیشہ فکر و غم میں مستغرق نظر آتے تھے ۔
ترک ِسلطنت: ایک رات آپ اپنے شاہی محل میں سوئےہوئےتھےکہ چھت پر کسی کے دوڑنے کی آواز سنائی دی، بیدار ہوئےتو آواز دی تم کون ہو؟ جواب آیا کہ میں ایک مسافر ہوں میرا اونٹ گم ہوگیا تھا۔ اسے تلاش کر رہا ہوں ۔آپ نے کہا ارے بیوقوف گھروں کی چھتوں پر اونٹ بھی ملتے ہیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اونٹ گھر کی چھت پر آجائے اُس شخص نے جواب دیا تم تو مجھ سے بھی زیادہ بیوقوف ہو کبھی خدا بھی شاہی محلات میں ملتا ہے۔تم ریشمی بستر پر آرام کررہے ہو اور یہ بھی چاہتے ہو کہ تمہیں خدا مل جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
؏:ہم خدا خواہی دہم دنیائے دوں۔۔۔۔این خیال ست و محال است و جنون
اس بات سے سلطان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کی دل کی دنیا بدل گئی صبح اُٹھے اپنے بیٹے کو تخت نشین کردیا۔ امورِ سلطنت اُس کے حوالے کیے، شہر چھوڑ کر جنگل کی راہ لی، جنگل میں پہنچے تو شاہی لباس اُتار کر ایک گدڑیے کو بخش دیا۔ اور اس کے پھٹے پرانے کپڑے خود پہن لیے۔ بلخ کو چھوڑ کر نیشاپور آئے اور پہاڑ کی ایک غار میں عبادت کرنے لگے۔ جمعرات کی رات غار کی چھت پر آتے، لکڑیوں کا گٹھا جمع کرتےسر پر اُٹھاکرشہر میں پہنچتے اورلکڑیاں بیچ کر جو کچھ حاصل ہوتا اس کا نصف اللہ کی راہ میں دے دیتے اور نصف سے اپنی ضرورت کی چیزیں خرید کرلے آتے۔ ایک عرصہ تک یہی کام رہا ۔پھر غیبی اشارہ سے مکہ معظمہ پہنچےاور خواجہ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہوگئےا ور ظاہری و باطنی کمالات حاصل کیے۔
خدائی سلطنت: جن دنوں سلطان ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے بازار میں آیا کرتے تھے تو بلخ کا ایک امیر آدمی بھی وہیں رہتا تھا۔ اُس نے سلطان ابراہیم کو پہچان لیا اور بادشاہی چھوڑ کر لکڑیاں بیچنے پر بڑی ملامت شروع کردی۔ حضرت سلطان ابراہیم کو اُس کی باتوں پر بڑا غصہ آیا۔ بیٹھے بیٹھے لکڑیوں کے گٹھے پر ہاتھ مارا تو وہ ساری سونے کی بن گئیں۔ سلطان ابراہیم نے یہ سارا سونا اُس کو بخش دیا، اور کہا کہ آج بلخ کی سلطنت کی یاد کی نحوست کی وجہ سے میری حلال کی روزی ضائع ہوگئی۔
اسی طرح جن دنوں سلطان ابراہیم بلخ کی بادشاہت چھوڑ کر بیابان میں چلے گئے تو چند دن دریا کے کنارے پر قیام کیا وہاں امراء اور وزراء حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ دوبارہ تخت نشین ہوجائیں سلطان ابراہیم اس وقت اپنی گدڑی سی رہے تھے آپ نے سوئی دریا میں پھینک دی اور فرمایا کہ تم بڑے طاقتور حاکم ہو۔ دنیا کے سارے اسباب تمہارے پاس موجود ہیں دریا سے میری سوئی نکال دو کوئی بھی سوئی نہ نکال سکا۔ آپ نے بلند آواز سے کہا کہ اے دریا کی مچھلیو میری سوئی نکال کر لاؤ۔ اُسی وقت ہزاروں مچھلیاں اپنے منہ میں سونےاورچاندی کی سوئیاں اٹھائے پانی کی سطح پر تیرنے لگیں۔ ایک مچھلی کے منہ میں حضرت خواجہ کی سوئی بھی تھی، آپ نے ہاتھ بڑھا کر اس سے سوئی لی اور تمام مچھلیوں کو رخصت کردیا۔ا مراء کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ہماری سلطنت تمام جہاں پر ہے اب ہمیں بلخ کی سلطنت کی ضرورت نہیں ہے۔
منقول ہے کہ ایک دفعہ خواجہ ابراہیم بن ادھم قدس سرہ جعفر بن منصور کے پاس آئے جو عباسیوں میں دوسرا خلیفہ اور وارث ِتخت و تاج تھا۔ خلیفہ نے بڑے جوش کے ساتھ استقبال کیا اور سلام کے بعد کہا۔ اے ابو اسحٰق تمہارا کیا حال ہے خواجہ ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے امیر المومنین:"نرفع دنیانا بتمزیق دیننا۔فلا دیننا بقی ولا ما نرفع"۔یعنی ہم نے اپنا دین پست کر کے دنیا کو بلند کیا لیکن اب نہ تو دین باقی رہا اور نہ ہی وہ چیز ہی رہی جسے ہم نے بلند کیا تھا ۔(بعینہ آج مسلمانوں کے وہی حالات ہیں دین سےمنہ موڑکردنیا کی طرف بھاگےتھے،دین کوتوپہلےہی خیرآبادکہ دیاتھا،لیکن دنیابھی ہاتھ میں نہ رہی۔یہی وجہ ہےکہ آج پوری دنیامیں مسلمان کےخون سےسستی کوئی چیزنہیں ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ جب تم دنیاکےپیچھے بھاگوگے،تودنیاتم سےبھاگےگی،اورجب تم دنیاسےنفرت کروگےتودنیاتمھارےپیچھےبھاگےگی۔حضرت ابراہیم بن ادھم کےواقعات ہمارےلئےدرس عبرت ہیں،بڑےبڑے دنیاداروں کےنام ونشاں مٹ گئے اور آپ کانام انشاءاللہ قیامت تک زندہ رہےگا۔)
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کامشہورقول ہے:کہ جب تم گناہ کاارادہ کروتو خدا کی بادشاہت سےباہرنکل جاؤ۔
وصال: آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سالِ وفات اور مزارکے بارے میں اختلاف ہے۔اصح قول کےمطابق 26جمادی الاول161ھ(بحوالہ اردودائرہ معارف اسلامیہ جلد1،ص،354جامعہ پنجاب لاہور) کوآپ کا وصال ہوا۔آپ کا مزارمبارک شام میں حضرت لوط علیہ السلام کےمزارپرانوارکےقریب زیارت گاہِ خاص عام ہے۔
ماخذومراجع: خزینۃ الاصفیاء۔نفحات الانس۔سیرالاولیاء۔اردودائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور۔