حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی۔القاب:شمس العارفین،برہان العاشقین،پیرسیال لجپال۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:برہان العاشقین،شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی بن حضرت خواجہ محمد یار بن میاں محمد شریف بن میاں بر خورداربن میاں تاج محمود بن میاں شیر کرم علی۔آپ کے آباؤاجد ادکئی پشتوں سے دنیاوی عزو جاہ اور علم و تقویٰ میں ممتاز تھے ۔آپ کے جد اعلیٰ حضرت موسیٰ پاک شہید ملتانی قدس سرہ کے خلیفۂ مجاز تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب پچاس واسطوں سے حضرت عباس علمدار شہید کر بلا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1214ھ،مطابق 1799ء کو "سیال شریف"ضلع سرگودھا،پنجاب پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: حضور اعلیٰ سیالوی قدس سرہ ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن کی تعلیم کے لئے مکتب میں بٹھائے گئے ۔سات سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔علم دین کی تحصیل کے لئے علاقہ پنڈی گھیپ کے ایک گاؤ ں" میکی ڈھوک "میں گئے ۔ ابھی فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں کہ استاذ گرامی کا وصال ہو گیا ۔پھر مکھڈشریف تشریف لے گئے،وہاں مولانا محمد علی مکھڈی سے تکمیل فرمائی۔اسی طرح مولانا حافظ دراز پشاوری سے بھی تعلیم حاصل کی۔آپ اپنے وقت کے جید عالمِ دین تھے۔
بیعت وخلاف: غوثِ زمان حضرت خوجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور 36سال کی عمر میں خلافت سے مشرف کیے گئے۔
سیرت وخصائص: اقلیمِ معرفت کاتجدار،میدانِ جودوعطاء کاشہسوار،کاروانِ عشق ومستی کا قافلہ سالار،مطلعِ ہدایت کے نیرِ تاباں،خضر گم کردہِ راہاں، فخرالاتقیاء ،برہان العاشقین،شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کاشمار اکابرِ اولیاء کرام میں سے ہوتا ہے۔آپ کی تعیلمات سے ایک زمانہ روشن ہوا ہے۔پیر کرم شاہ فرماتے ہیں:حضرت کا اندازِ تبلیغ وارشاد بالکل نرالاتھا۔اسوۂ نبوت کا کامل نمونہ تھے۔جوبات بیان فرماتے، پیارومحبت کے رنگ میں فرماتے۔بڑے سے بڑا جھگڑالو مدِمقابل بھی خلوص کی مہک سے ازخود رفتہ ہوکرسرنیاز قدموں میں رکھ دیتا۔بڑے بڑے علماء وفضلاء مناظرے کرنے کے لئے حاضر ہوئے،لیکن نگاہِ ناز کی تب نہ لاکر ہمیشہ کےلئےغلام ِبے دام بن کر رہ گئے۔آپ کے فضل وکمال کااندازہ لگانے کےلئے صرف یہ کہ دینا ہی کافی ہے کہ "غوث الاسلام سیدنا پیرمہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ"آپ کے فیض یافتہ تھے۔ آپ ملکوت صفات اور قدسی اخلاق کے پیکر تھے،آپ کے قائم کردہ لنگر سے ہر مسافر مفلس اور مسکین بہرہ ور ہوتا اور آپ ہر در مند کی دکھ بھری داستان سنتے اور حسب حال اس کا مداوا فرماتے ، شریعت مقدسہ کی اتباع اور پیروی میں اپنی مثال آپ تھے، نماز باجماعت ادا کرتے اور مریدین کو بھی اتباع سنت مطہرہ کا سختی سے حکم دیتے ، آپ نے رشد و ہدایت کا پیغام اعلیٰ پیمانے پر عوام و خواص تک پہنچا یا اور بے شمار مریدین کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔آپ نے اپنے پیرومرشد کی خدمت کاحق اداکردیا۔اپنے پیر سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔بلکہ آخری عمر میں تو فنافی الشیخ کے درجے پر فائز ہوگئے تھے۔جب آپ نےسیال شریف میں قیام کا ارادہ فرمایا اور ارشادمرشد کے مطابق تمام اور ادو اذکار ادا کرنے کے ساتھ درس وتدریس سلسلہ شروع کیا،سال میں کئی دفعہ پا پیا دہ مرشد کامل کے دربار میں حاضری دیتے اور کم و بیش چالیس دن تک وہاں قیام کرتے ۔چودہ مرتبہ حضرت پیر پٹھان کی معیت میں تونسہ شریف سے مہار شریف کا سفر اس اس شان نیاز سے کیا کہ مرشد ِکامل گھوڑی پر سوار ہوتے اور آپ آ نحضو ر کا قرآن مجید،رحل اور دیگر وظائف سر پر رکھے ، پانی کا کوزہ دائیں ہاتھ میں ،مصلیٰ اور عصا بغل میں دبائے ساتھ ساتھ دوڑ تے جاتے تھے، دیکھنے والے اس پیکر ِحسن و جمال کی جفا کشی اور عقیدت کیشی کو دیکھ کر محو حیرت رہ جاتے اور اہل نظر اس شہباز معرفت کی قوت پر واز کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے۔36سال کی عمر میں جب آپ کا قلب ِانور عبادت ور یاضت اور پیر ِکامل کی نگاہ ِکیمیا اثر کی برکت سے رشکِ شمس و قمر بن چکا تھا۔حضرت پیر پٹھان سلیمان زماں حضرت خواجہ محمد سیلمان تونسوی قدس سرہ نے خرقہ خلافت عطا کیا اور فرمایا:"جو شخص بیعت کی تمنا لے کر حاضر ہو،اس کی مراد بر لائی جائے،اور اپنے اشغال میں مصروف ہو کر اسے نظر اندزنہ کر دینا۔"
مرشد اکمل سے عقیدت و محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک نورانی پیکر بزرگ حضرت پیر پٹھان قدس سرہ کے پاس تشریف لائے اور کچھ دیر محو ِگفتگو ہو کر رخصت ہو گئے ۔ ان کے جانے کے بعد حضرت نے فرمایا:"یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے ، جو شخص ان کی زیارت کرنا چاہتا ہے جائے اور زیارت کرے " تمام حاضرین دیوانہ وار ان کے پیچھے چلے گئے ،مگر حضرت خواجہ شمس العافین وہیں بیٹھے رہے ۔ حضرت خواجہ شاہ سلیمان نے فرمایا:" مولوی !تمہیں حضرت خضر کی زیارت کا شتیاق نہیں" عر ض کی میرے لئے اسی کی زیارت کافی ہے جس کی ملاقات کے لئے حضرت خضر چل کر تشریف لائے ہیں ۔
؏: ہمہ شہر پر ز خوباںمنم و جمال ماہے۔۔۔چہ کنم کہ چشم خوش مبیں نکند بہ کس نگا ہے۔
اس خلوص و محبت پر حضرت پیر پٹھان بہت خوش ہوئے اور دعاکی۔" اللہ سائیں میرے سیال کو رنگ لائیں ۔" اس دعا کا یہ اثر ہو ا کی چہار دانگ عالم سے جام ِعرفان کے متلاشی پروانہ وار آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور تسکین دل و جاں اور منزل مراد حاصل کرتے۔
تاریخِ وصال: حضرت خواجہ شمس العارفین کا وصال 24/صفرالمظفر1300ھ،مطابق جنوری 1883ء کوہوا۔آپ کامزارشریف"سیال شریف"ضلع سرگودھا،پنجاب پاکستان میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔ماہنامہ ضیائے حرم شمس العارفین نمبر۔