حضرت خواجہ یوسف بن محمد بن سمعان علیہ الرحمۃ
آپ محمد بن ابی احمد کے ہمشیرہ زاد اور ان کے مرید و ترتیب یافتہ ہیں۔ خواجہ محمد ۶۵ سال تک عیالدار نہیں ہوئے۔ایک ان کی ہمشیرہ تھی جن کی وہ خدمت کیا کرتے تھے۔ان کا کھا نا پہننا ان کے ہاتھ کے کاتے ہوئے سے ہوتا تھا۔آپ کا سن چالیس سال تک پہنچا تھا۔بھائی کی خدمت اور خدا کی بندگی کی وجہ سے نکاح کی خواہش نہ رکھی تھی۔
آپ رات خواجہ محمد ان کے پدربزر گوار نے خواجہ ابو احمد کو خواب میں دیکھا کہ یوں کہتے ہیں۔تمہاری ولایت میں فلاں شخص ہے۔محمد بن سمعان اس کا نام ہے۔جس نے علم تحصیل کیا ہے اور زمانہ کی اصلاح کردی ہے۔ تم اپنی ہمشیرہ کا نکاح کردو۔خواجہ نے ان کو طلب کیا اور اپنی ہمشیرہ کا نکاح ان سے کردیا۔پھر وہ بھی چشت میں رہ گئے تھے۔خواجہ یوسف انہیں کے فرزند ہیں۔خواجہ محمد ۶۵ سال کےبعد عیالدار ہوئے تھے لیکن کوئی لڑکا بزرگ نہ ہوا تھا۔ خواجہ یوسف کو بمنزلہ فرزند کو پرورش کرتے تھے۔علم اور راہ خدا کے سلوک کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ ان کے وفات کے بعد وہی ان کے قائم مقام ہوئے۔خواجہ یوسف کو پچاس سال کے بعد گوشہ نشینی اور قطع تعلق ہوا۔ انہوں نے چاہا کہ خواجہ حاجیمکئی کے مزار کے نزدیک کہ جو بڑے بزرگ گزرے ہیں اور شیخ ابو اسحٰق ان کی زیارت کیا کرتے تھے۔ایک چلہ زمین میں کریں ہاتف غیبی کے اشارہ سے اس موضع کو کہ اب ان کا چلہ خانہ ہے اختیار کیا۔جب بیل کلہاڑا لائے تو زمین بہت سخت تھی۔چناچہ کوئی اس کو توڑنہ سکتا تھا۔خواجہ نے کلہاڑا ہاتھ میں لیا اور اپنے دست مبارک سے دس بجے سے لے کر نماز ظہر تک اس کو کھود کر پورا کردیا۔بارہ سال تک وہاں قیام کیا اس قدر و حشت و حیرت و شیفتگی ان پر غالب ہوئی کہ کبھی ایسا ہوتا جب خادم وضو کا پانی ان کے ہاتھ پر ڈالتے تو وضو کی حالت میں اپنے آپ سے غائب ہو جاتے۔
ایک گھٹی کم و بیش اس وقت غیبت کی حالت میں رہتے پھر موجود ہوجاتے اور وضو کو پوراکرتے۔اس وقت میں کہ شیخ الاسلامابو اسمعیل عبداللہ انصاری قدس اللہ تعالی سرہ چشت کہ مزار پر گئےتھے تو ان سے ملاقات کی تھی۔بعد واپسی کے ہرات میں مجالس اور محفلوںمیں ان کی تعریف کیا کرتے ۔وہ رحمتہ اللہ علیہ ۴۵۹ھ میں فوت ہوئےاور ان کی عمر ۸۴ سال تھی۔انتقال کے وقت اپنے چھوٹے صاجزادہ قطب الدین مودود چشتی کو تحصیل علوم کی وصیت فرمائی اور اپنا قائم مقام کیا۔
(نفحاتُ الاُنس)