حضرت خواجہ عبداللہ ایامی اصفہانی علیہ الرحمۃ
آپ بھی خواجہ علاؤ الدین قدس اللہ تعالی کے صحاب میں سے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ جب میں پہلی دفعہ ہی خواجہ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے یہ شعر پڑھا:
تو زخود گم شو کمال انیست بس تو ممان اصلا وصال انیست و بس
آپ اپنے بعض رسالوں میں ذکر کرتے ہیںکہ علائیہ گروہ کی توجہ کا طریقہ اور ان کی باطنی نسبت کی پرورش یوں کہ جب چاہتے ہیں کہ اس میں شغل کریں۔اولاً اس شخص کی صورت کہ جس سے یہ نسبت حاصل کی ہے خیال میں لاتے ہیں۔یہاں تک کہ حرارت کا اثر اور ان کی بعینہ کیفیت ظاہر ہوجائے۔اس کے بعد اس خیال کو نہیں مٹاتے،بلکہ اس کو نگاہ رکھتے ہیں۔آنکھوں ،کان اور تمام قوتوں سے اس خیال کے ساتھ دل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔جس جس سے حقیقت جامع انسانی مقصود ہے کہ موجودات علوی و سفلی کا مجموعہ اس کی تفصیل ہے۔اگرچہ وہ جسم میں حلول کرنے سے پاک ہے۔لیکن چونکہ اس میں اوراس صنوبری گوشت کے ٹکڑے میں ایک نسبت واقع ہے۔اس لیے آنکھ ،فکر،خیال اور سب قوتوں کو اس پر مقرر کرنا چاہیے اس پر ظاہر رہنا اور دل کے دروازہ پر بیٹھنا ہے ۔اس میں ہمیں شک نہیں کہ اس حالت میں عینیت و بے خودی کی کیفیت کی حالت میں شروع ہو جاتی ہے۔اس کیفیت کو راستہ فرض کرنا چاہیے۔اس کے پیچھے چلنا اور جو فکر آجائےاس کو اپنے دل کی حقیقت کی طرف متوجہ ہو کر اس فکر کی نفی کردینا اور اس چیز کی طرف مشغول نہ ہونااور اس مجمل سے کلی کی طرف بھاگنا چاہیے۔جب تک اس کی نفی نہ ہو۔اس شخص کی صورت کی التجا کرنا اس کو یک لحظہ جمانا تاکہ پھر وہ نسبت پیدا ہوجائے۔اس وقت وہ ڈورت خود جاتی رہتی ہے۔لیکن چاہیے کہ متواجہ ہونے والا شخص اس صورت کو نفی نہ کرے۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ کلمہ طیبہ کے معنی یہ ہیں۔نفی سے مقصود یہ ہے کہ کثرت اور صورت اشیاء اس عین واحد کی طرف لوٹانا جو کہ تم سالکوں کا مقصود و مطلوب ہے۔اثبات سے مقصود یہ ہے کہ اس ایک کی ذات کا تمام صورتوں میں مشاہدہ کرنا اور ان سب کو اس واحد کاعین دیکھنا پس لا الہیعنی وہ کے غیر کی وہمی صورتیں نہیں ہیں بلکہ اس ایک اصل کی طرف راجع ہیں اور الا اللہ یعنی یہ معنی ایک ہیں جو ان صورتوں میں نظر آتا ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)