حضرت خواجہ ابو طاہر کردی رحمتہ اللہ
آپ خضر علیہ السلام کی صحبت میں رہتے تھے۔شیخ الاسلام احمد جام کی ان سے بڑی دوستی تھی۔وہ ان کے پاس جایا کرتے تھے۔شیخ الاسلام احمد کیے ہیں کہ ایک سن میرے نفس نے مجھ سے زرد آلو مانگے تو میں نے اس سے کہا کہ اگر تو پورا ایک سال تک روزہ رکھے گا تب تجھ کو زرد آلودوں گا۔اس نے قبول کر لیا جب پورا سال ہوگیاتو نفس نے کہا میں نے تمہاری بات مان لی تھی۔اب تم اپنا وعدےکو پورا کرو۔تب میں انگوروں میں آیا جو مجھ کو میرے باپ سےورثہ میں پہنچے تھے۔میں نے جاکر دیکھا کہ زرد آلو تو گیدڑ کھا گیا تھا اور ایک زرد آلو ویسا ہی ثابت زمین پر ڈال گیا تھا۔میں نے اس کو اٹھا لیا اور پاک کرنے لگا۔نفس نے فریاد کی کہ احمد پاک کرتا ہے۔اس کو کیا کرے گا میں نے کیا کہ تجھے دوںگا۔کیونکہ تجھ سے زرد آلو کا قرار تھا۔سو یہ بھی زرد آلوہے۔صرف اتنافرقہےکہ اس پر ایک درندہ جانور گزر گیا ہے۔
نفس نے کہا میں نے تجھ سے عہد کیا ہے کہ اس کے بعد تجھ سے کوئی آرزو نہ کروں گا یہ مجھے دے دے۔ میں نے کہا سچ ہے پھر میں نے درخت سے چند زردلو لیے۔چند زرد آلو کھائے اور چندآستین میںرکھ دیے۔انہوں نے تھوڑی دیر ان کودیکھا پھر کہا اے احمد ہم کو زرد آلو مال و قف سے لائے ہوئے دیتے ہو۔میں نے کہا اے شیخ وقف نہیں بلکہ اپنے ملک کے درخت سے اور اپنے ہاتھ سے توڑکر لایا ہوں۔کہا خوب وقف زرد آلو لاتے ہواورملک بنا کر ہمارے سر ڈالتے ہو۔ہم کو اندھا بناتے ہو۔میں ادب سے سنتا رہااور خاموش کھڑا رہا۔دل میں خدائے تعالٰی سے دعا مانگنے لگا کہ خداوندا تو جانتا ہے کہ میں نے اپنے ملک سے ہاتھ سے توڑے ہیں اور ہو درخت باپ سے میرے ورثہ میں ہے۔یہ حال اس پر کھول دے۔ایک گھڑی ہوئی اپنے لڑکے کو بلایا اور حکم دیا جا گلی میں سے ایک بکری لا اور اس کو ذبح کراور کہہ سے کہ شوربا تیار کرے۔کہ احمدکے سرد دماغمیںبھوک کا صغرا آگیا ہے۔وہ نہیں جانتا کہ کیا کرتا ہے اور کیا کہتا ہےمیں خاموش تھا۔جب کھانا لائےتو میرے دل میں یہ آیاکہ گوشت و شوربا مت کھا۔کیونکہ حلال کی وجہ سے نہیں۔
میں روٹی کھاتا تھا شیخ الاسلام نے کہا کیوں نہیں کھاتے میں نے کہا یہی کافی ہے۔شیخ نے اصرار کیا کہ جو کچھ تمہارے دل میں ڈالا گیا ہےسچ بتلا میں نے کہا کہ لڑکے کو بلاؤ اور گوشت کا حال اس سے پوچھو۔لڑکے نے کہا کہ گلہ دور چلاگیا تھا میں نے یہ گوشت فلاں قصائی سے لیا تھا۔قصائی کو بلایا گیا اس نے کہا کہ یہ گوشت اس بتری کا تھا۔کہ کوتوال نے ظلم سے لےکر مجھ کو دی تھی کہ ذبح کر۔آدھاگوشت تو کوتوال لے گیا تھااور آدھا باقی رہا تھا۔شیخ زادہ آیا اوراس نے اٹھاکیا۔شیخ ابو طاہر نے سر نیچے ڈال لیا اور میں اٹھ کر کھڑا ہوا۔وہاں سے قریب ایک حجرہ تھا میں وہاں پر آگیا تومجھ پر رونا غالب ہوا۔میں نے دعا مانگی کہ خداوندا تم نے میری محبت کسی سے نہ رہنے دی ایک پیر تھا کہ ایک گھڑی اس کی صحبت میں جاکر بیٹھ جایا کر تا تھاتو نے ایسا کردیا کہ اب شرم کے مارے اس کے سامنے بھی نہیں جا سکتا۔ایک گھڑی کے بعد شیخ ابو طاہر آئے اور بیٹھے تو میں نے دل میں مناجات کی۔کہ خداونداجیسے گوشت کا حال ان پر کھول دیا ہے"ایسے ہی زرد آلو کا حال بھی اس پر کھول دے۔میں اس مناجات میں تھا کہ خضر علیہ السلام آگئے اور فرمایا اے ابو طاہر احمد کے ملک کا نام تم نے وقف رکھا اور مشتبہ گوشت کو حلال بتایا یہ کہاں سے سیکھے ہو۔تم کو احمد پر کوئی گرفت نہیں ہوسکتی کیوں کہ وہ بڑے مرتبہ پر جارہاہے۔
(نفحاتُ الاُنس)