حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ بڑے احوال عجبہ اور مقامات غریبہ کے مالک تھے آپ مقتدائے مشائخ اور پیشوائے ابدال تھے آپ کا لقب نیر الدین تھا۔ حضرت خواجہ موجود چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے خرقۂ خلافت پایا تھا۔ چودہ سال کی عمر سے باوضو رہنے لگے۔ کپڑے پرانے اور پیوند شدہ پہنتے تھے۔ فقر و تجرید پر کار بند رہے، آپ کا روزہ بھی مسلسل روزہ تھا،تین روز کے بعد بے نمک سبزی سے روزہ افطار کرتے تھے۔ اس سبزی میں یہ کمال تھا کہ آپ کا تبرک کوئی اور کھاتا تو مجذوب ہوجاتا۔ اگر سماع سن لیتا تو اس قدر روتا کہ بے ہوش ہوجاتا، اگر دنیا پرست ایک بار مجلس سماع میں شریک ہوتا تو تارک الدنیا ہوجاتا تھا۔
ایک فکر مند فقیر جس کی سات بیٹیاں تھیں، اور غربت و افلاس کی وجہ سے سخت پریشان تھا۔ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، عرض کی اگر آپ کی نگاہ فیضان سے میرے رزق میں کشادگی ہوجائے اور بیٹیوں کے نکاح سے فارغ ہوجاؤں تو ساری عمر دعا گو رہوں گا، آپ نے فرمایا: تم کل آنا، کوئی تدبیر سوچیں گے، درویش چلا گیا، جاتے ہوئے راستہ میں اسے ایک یہودی سے ملاقات ہوئی، یہودی نے درویش سے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے، اس نے اپنی پریشانی مشکلات کا مسئلہ حضرت حاجی صاحب کے کل آنے کا حکم اور دوسرے حالات سنائے، یہودی کہنے لگا، حاجی شریف تو خود محتاج اور تہی دست ہیں تمہاری کیا مدد کریں گے، تم حاجی صاحب کے پاس واپس جاؤ اور انہیں کہو کہ فلاں یہودی نے کہا ہے کہ اگر خواجہ شریف سات سال میری خدمت کا وعدہ کرلیں تو میں آج ہی سات ہزار سرخ دینار دینے کو تیار ہوں وہ درویش واپس حاضر خدمت ہوا سارا واقعہ سنایا حضرت حاجی صاحب نے سنتے ہی فرمایا مجھے منظور ہے اور اُسی وقت اٹھ کر اس کے ساتھ یہودی کے پاس چلے گئے سات ہزار دینار اس درویش کو دلادیے اور خود خدمت گزاری پر آمادہ ہوگئے، بادشاہ کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو اس نے حضرت خواجہ کی خدمت میں سات ہزار دینار بھیجے تاکہ یہودی کا قرضہ دے کر فارغ ہوجائیں، حضرت حاجی صاحب نے یہ سات ہزار بھی غریبوں میں تقسیم کرکے فرمایا، میں نے یہودی کی سات سالہ نوکری کا عہد کیا ہے اب اس عہد سے پھرنا مناسب نہیں یہودی نے حضرت حاجی صاحب کی استقامت سن کر اپنا قرضہ معاف کردیا اور حضرت کو آزاد کردیا، آپ نے یہودی کو فرمایا کہ تم نے مجھے آزاد کیا ہے میرا اللہ تمہیں آتش دوزخ سے آواز کرے، یہودی یہ دعا سن کر مسلمان ہوگیا اور مقبولان خدا سے ہوگیا۔
سفینۃ الاولیاء کے مصنف نے لکھا ہے کہ کسی شخص نے شہنشاہ سنجر کو اس کے مرنے کے بعد خواب میں دیکھا پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا سنجر نے بتایا مجھے حکم دیا گیا کہ دوزخ کے شعلوں کے حوالے کردیا جائے، عذاب کے فرشتے لیے جا رہے تھے کہ آواز آئی شاہ سنجر کو چھوڑ دو، اس نے ایک دن حضرت خواجہ شریف زندنی کی مجلس میں نیاز مندانہ حاضری دی تھی، اس مجلس کی برکت سے اسے بخش دیا گیا ہے۔ چنانچہ مجھے رہائی مل گئی۔
آپ کی وفات دس رجب المرجب چھ سو بارہ ہجری کو ہوئی، آپ کی عمر مبارک ایک سو بیس سال تھی۔
چون شریف از عالم دنیا برفت
سال وصل آں شہ والا حنیف
کن رقم مہتاب دیں اہلِ دین
۶۱۲ھ
نیز کن تحریر حاجیٔ شریف
۶۱۲ھ
علماء کے مقتدا اولیاء کے پیشوا خواجہ شریف زندنی ہیں جو حقائق حقیقت کے کلمات میں اپنے زمانہ کے مشائخ کبار میں بے نظیر اور عدیم المثال شہرت رکھتے تھے اس عہد کے تمام علما و فضلا بالخصوص اہل حقیقت آپ کی طرف متوجہ تھے آپ نے خرقہ ارادت خواجہ قطب الملۃ الدین مودود چشتی کی خدمت سے زیب تن فرمایا تھا۔ منقول ہے کہ خواجہ حاجی شریف زندنی نے چالیس سال تک مخلوق سے علیحدگی اختیار کر کے جنگل و بیان میں زندگی بسر کی اور اس عرصہ میں صرف درختوں کے پتے اور جنگلی میئووں کے کھانے پر قناعت کی۔ آپ کے زہد اور ترک دنیا کا یہ حال تھا کہ جب کوئی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو خادم اس سے تاکیداً کہہ دیتے کہ دیکھو خواجہ کے سامنے دنیا کا ذکر ہر گز نہ کرنا اور اس کی کوئی حکایت آپ کے سامنے بیان نہ کرنا ورنہ زیارت کی سعادت سے محروم و بے نصیب رہو گے۔ منقول ہے کہ ایک دن ایک شخص خواجہ کی خدمت میں کچھ نقدی لایا آپ نے نہایت تند اور قہر ناک آواز میں فرمایا کہ تجھے درویشوں سے کیا عداوت ہے جو خدا کے دشمن کو میرے پاس لایا ہے یہ کہہ کر آپ نے ارشاد کیا کہ ذرا صحرا کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھ۔ وہ شخص دیکھتا ہے کہ صحرا میں ایک بڑا عظیم الشان سونے کا دریا پڑا لہریں لے رہا ہے ازاں بعد خواجہ نے فرمایا کہ بھلا جس شخص کو خزانۂ غیب میں تصرف کرنے کی پوری قدرت حاصل ہو وہ تمہارے اس حقیر و نا چیز مال کی طرف کب نظر کرسکتا ہے۔ منقول ہے کہ سلطان سنجر کو لوگوں نے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیسا برتاؤ کیا۔ کہا میں نے جو نیک و بد کام دنیا میں کیے تھے ایک ایک میری آنکھوں کے سامنے رکھے گئے اور عذاب کے فرشتوں کو حکم صادر ہوا کہ اسے دوزخ میں لے جاکر داخل کرو۔ ابھی میں دوزخ کے فرشتوں کے ہاتھ میں نہ گیا تھا کہ دوبارہ یہ فرمان صادر ہوا چونکہ اس شخص نے فلاں دن دمشق کی مسجد میں خواجہ حاجی شریف زندنی کی قدم بوسی حاصل کی تھی لہذا میں نے ان کی برکت سے اسے بخش دیا۔
(سیر الاولیاء)
آپ کے دوسرے خلیفہ حضرت خواجہ ھاجی شریف زندنی قدس سرہٗ ہیں جو بہت بڑے بزرگ تھے اور حضرت خواجہ مودود چشتی کے نائب کل، خلیفۂ مطلق، سجادگی صوری ومعنوی کے وارث اور نعمت ولایت ظاہری وباطنی کے حامل تھے۔ حضرت خواجہ مودود قدس سرہٗ کو اپنے مشائخ سے جو نعمت ملی تھی آپ نے آخری وقت میں خواجہ شریف زندنی کو عطا فرمائی۔ اور اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ چنانچہ سلسلہ عالیہ چشتیہ کو آپ کے اہتمام سے نشو ونما ملی اورقیامت تک قائم رہے گا۔ آپ کاذکر خیر آئندہ صفحات میں آرہا ہے۔
(اقتباس الانوار)