حضرت مولانا خواجہ محمد یار فریدی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی:محمد یار۔تخلص:محمداوربلبل۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت مولانا خواجہ محمد یار فریدی بن مولانا عبدالکریم بن محمد یار بن محمد حسن بن محمد کبیر بن قاضی محمدمحسن بن قاضی ابوالعلی محمد یعقوب بن محمد یوسف بن ولی محمد ۔الیٰ آخرہ۔آپ کاسلسلہ نسب حضرت زیدبن عون بن مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کےواسطےسےخاندان بنی ہاشم تک پہنچتاہے۔آپ کاخاندانی تعلق "قطب شاہی اعوان"سے ہے۔(بہار چشت:161)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1300ھ،مطابق 1883ءکو"گڑھی اختیارخان" ضلع رحیم یارخان میں مولاناعبدالکریم کےگھرہوئی۔
تحصیل علم: ابتدائی تعلیم اپنےعلاقےمیں حاصل کی،اس کےبعد جلال پورمیں قرآن مجید،اورفارسی کی ابتدائی چندکتابیں پڑھیں،ابتدائی اساتذہ میں مولانا رحمت اللہ،مولانا محمد حیات اور مولانا تاج محمودشامل تھے۔اس کےبعد چاچڑاں شریف میں حضرت خواجہ غلام فرید علیہ الرحمہ کےمدرسےمیں داخل ہوئے،اور علوم دینیہ کی تحصیل کی اور 19سال کی عمر میں سند فراغت حاصل کرلی۔
بیعت وخلافت:آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں حضرت خواجہ غلام فرید علیہ الرحمہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے۔ حضرت خواجہ صاحب کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد بخش المعروف نازک کریم کی خدمت میں رہ کر دس سال تک کسبِ فیض کیا اوران کے وصال کے بعد ایک زمانہ تک ان کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد معین الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں رہے اور اجازت و خلافت سے مشرف ہوکر اپنے وطن گڑھی اختیار خاں چلے گئے اور علوم و معارف کے دریا بہادئے۔
سیرت وخصائص: سفیر عشقِ مصطفیٰﷺ،عاشقِ خیرالوریٰ،صاحبِ علم الہدیٰ،واعظِ خوش مقال،یادگاراسلاف،پرورۂ نگاہِ حضرت خواجہ معین،فیض یافتہ حضرت خواجہ غلام فرید،حافظِ مثنوی مولائےروم،محسن اہلسنت،حضرت علامہ مولانا خواجہ محمد یارفریدی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت کےمالک تھے۔تمام علوم پرمہارت تامہ حاصل تھی،لیکن آپ کو مدحتِ مصطفیٰﷺ،اور فن خطابت میں جو شہرت ومقام حاصل ہواوہ آپ ہی کاخاصہ ہے۔پنجاب میں بالعموم اورپورےہندوستان میں بالخصوص آپ کےمواعظِ حسنہ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔اس وقت کوئی بھی بڑاپروگرام آپ کی شرکت کےبغیرنامکمل تصورکیاجاتاتھا۔ایک مرتبہ توبریلی شریف میں امام اہلسنت کی موجودگی میں بیان فرمایا،ابھی خطبہ ہی شروع کیاتھاکہ امام اہلسنت نےاٹھ کرآپ کےگلےمیں پھولوں کاہارڈالااورفرمایا:"سرِآمدواعظینِ پنجاب"۔(بہارِ چشت:187)
پروفیسرڈاکٹر محمد اسحاق قریشی فرماتےہیں: ملک کے ہزار ہا قصبات میں سے ایک گڑھی اختیار خان ہے، مگر اس قصبے کو ایک لا زوال شہرت حاصل ہے کہ ا س کی آغوش میں اپنے دور کا ایک جادو بیان خطیب،درد و سوز کا سفیر،اسلاف کی روایات کا امین،بستانِ فرید کا بلبل،روشن ضمیر صوفی،عشق و محبت کا پیکر،مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے خاموش الفاظ کو نطق آشنا کرنے والا شیریں مقال واعظ،اور مٹی و ریت کے ذروں میں عشق کا بارود بھر دینے والا مردِ قلندر آسودہ ہے جس کی لحد، زیارت گاہ اہل کیف و مستی کا درجہ رکھتی ہے۔
اس گمنام قصبے کی ساری بہاریں اس ایک شخص کے تصور سے ہیں جو عمر بھر درد کی دولت تقسیم کرتا رہا جو لوگوں میں ذوق ابھارتا رہا، جو عشق کا درس دیتا رہاجو اپنے سوز میں ہر ایک کو شریک کرتا رہا اور جو اپنے ساز زندگی پر حسن کے نغمے ترتیب دیتا رہا اور ان نغموں سے دل کے اتاروں میں اب تک تھر تھراہٹ ہے، اگرچہ حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کےمتعدد نمایاں پہلو ہیں،ایک صوفی بزرگ،پختہ کار شاعر،روش خیال عالم دین،یہ سب ان کی طر حدار شخصیت کی جھلکیاں ہیں مگر میرے نزدیک ان کا سحر البیان خطیب ہونا بہت ممتاز اور روشن تعارف اور ان کی حکایت میں تصوف شعر و سخن کی چاشنی اور علم کا وقار سبھی موجود ہے۔(ایضاً)
حصول علم کے بعد تبلیغ دین اور فروغِ حبّ رسول ﷺکو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور ریاست بہالپور میں دھوم مچادی ، آپ اپنی تقریروں میں قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺکی تلاوت اس خوش الحانی سے کرتے کہ پوری محفل پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ،اپنی سحر آفرین تقریروں میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے فارسی اور سرائیکی اشاعر کا برمحل استعمال اس قدر شیریں لسانی سے کرتے کہ خطاب دو آتشہ ہوجاتا ، آہستہ آہستہ آپ پنجاب اور بر صغیر کے کونے کونے میں پہنچے اور اپنی وجد آفریں تقریروں سے لوگوں کو گرمایا اور تڑپا دیا۔لاہور،اجمیر،امر تسر،دہلی اور دیگرمقامات پر بزرگان دین کے اعراس اور دینی محفلوں میں آپ کا خطاب خصوصی توجہ اور اشتیاق سے سنا جاتا اور سامعین مہینوں اس کی لذت اور حلاوت محسوس کرتے تھے۔ عشقِ مصطفیٰﷺ ان کا اوڑھنا بچھونا اورر مقصد حیات تھا، یہی وجہ ہے کہ ایک جہاں ان کی خوش الحانی جادو بیانی اور گرمی گفتار کا معترف اور گواہ ہے۔آپ کا اصل تعارف تاجدارِ مدینہ سرور کائنات ﷺکی سچی محبت ہے اورپھرساری زندگی عشق مصطفیٰﷺکی سوغات تقسیم کرتےرہے۔
مولانا سیدفاروق القادری فرماتےہیں:"سرور عالم ﷺکی محبت کا نتیجہ بھی یہی تھا کہ ان پاکیزہ اوصاف اور احکام کی تبلیغ و ترویج کی جائے جن پر آپ ﷺفائز تھے،اس حیثیت سے ہم دیکھتے ہیں تو خواجہ محمد یار رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اسوہ ٔ رسول ﷺکی تصویر تھی آپ کا بیشتر وقت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی قیل و قال میں گزرتا،آپ نے زندگی ایک عام فرد کی حیثیت سے بسر کی عام آدمیوں کے دکھ درد میں شریک ہونا سب لوگوں کو حتی الامکان راضی رکھنے کی کوشش کرنا اپنے لیے امتیازی علامت قائم نہ کرنا اہل بیت اور مشائخ کے خانوادوں کے سامنے اپنی ہستی کو مٹا دینا، اپنی دوستی دشمنی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکو معیار بنانا آپ کی ایسی خصوصیات ہیں جنہیں محبت رسول ﷺکے بغیرنہیں اپنایا جاسکتا ۔(بحوالہ حضرت خواجہ محمد یار اور عشق رسولﷺ)
ڈاکٹر الطاف حسین جہانیاں،حضرت خواجہ محمدیار رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی خصوصیات بیان کرتے ہیں:آپ بڑے قادر الکلام شاعر تھے،آپ کے کلام میں سادگی،مقامی رنگ،وعظ و نصیحت،درد و غم،سوز و گداز،تغزل،ترنم و موسیقیت مضمون آفرینی،نازک خیالی اور جدت ادا نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔آپ کی ساری شاعری تصوف،وحدۃالوجود،نعتِ حبیب ﷺ مدح صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور منقت اولیائے کرام پر مشتمل ہے۔(بہارچشت،بحوالہ حضرت خواجہ محمد یار فریدی شخصیت و کلام)
آپ کاوصال 1948ءکولاہورمیں ہوا۔اس وقت حالات کےپیش نظر حضرت میاں میر علیہ الرحمہ کےآستانہ عالیہ کی دیوارکےساتھ بیرونی جانب امانتاً دفن کیا گیا،تقریباً چھ ماہ بعد آپ کو"گڑھی اختیارخان "میں موجودہ روضہ مبارک سےمتصل جگہ میں سپردخاک کیاگیا۔14سال بعدموجودہ مزارمبارک میں منتقل کیاگیا۔جب قبرکشائی ہوئی تودیکھنےوالےحیرت میں تھے کہ اتناعرصہ بیت گیا،خاک نشینی کادورانیہ اتناطویل کہ انسانی جسم کاخاک ہوجانا حقیقت،مگریہاں کیاہوا؟نہ قلیل عرصہ اورنہ کثیردورانیہ اثرندازہوا،یہ اس بات کااعلان تھاکہ عشقِ مصطفیٰﷺمیں فنادراصل بقاکی ضمانت ہے۔؏:زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں ان کےنام پر۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا
حیرت بالائے حیرت تو یہ ہے کہ صاحبِ مزارکوپہلےسےہی یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔اس لئے آپ نےپہلے فرمادیاتھا۔؏:وہ خاکسار ہوں برہم میرامزار رہا۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 14رجب المرجب 1367ھ،مطابق 24/مئی 1948ء ،بروزپیرکوہوا۔آپ کامزارشریف "گڑھی اختیار خان"تحصیل خان پور ،ضلع رحیم یارخان ،پنجاب ،پاکستان میں مرجع خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اکابر اہلسنت۔بہار چشت۔