سلطان الاولیاءحضرت خواجہ پیر نظیر احمد موہڑوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: آپ حضرت خواجہ قاسم نقشبندی موہڑوی کے فرزندِارجمنداورجانشین ہیں۔
سیرت وخصائص: آغوشِ پدری میں قلب و نظر کی کایا پلٹنے کے گرُسیکھنے کے بعد اور علومِ دینیہ مقتدر علماءسے حاصل کرنے کے بعد آپ اشاعتِ اسلام میں متحرک ہوگئے۔ وصال سے قبل ہی حضرت خواجہ قاسم نقشبندی موہڑوی نے آپ کو بلا کر فرمایا کہ آپ دنیا کی حکومت کے لئے نہیں۔ بلکہ قلوب پر حکمرانی کے لئے بارگاہِ ربانی سے عطا کیے گئے ہیں۔آپ کو آپ کے روحانی مرتبہ کی وجہ سے آپ کے والدِ بزرگوار قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت خواجہ قاسم نقشبندی موہڑوی آپ کےلئے اپنی نشست سے قدرے اوپر اٹھے۔ حاضرین میں سے کسی نے اعتراض کیا تو حضرت بابا جی نے فرمایا: میں نے ایسا ان کے مقامِ غوثیت کی وجہ سے کیا ہے۔
آپ کی حیات طیبہ زہد و تقویٰ، ترویجِ اسلام، غلبۂ دین اور تزکیۂ نفوسِ خلق سے عبارت ہے۔ اعلیٰ حضرت سرکارِ موہڑوی ملت کی شیرازہ بندی اور اغیار کی غلامی سے آزادی کےلئے کہیں "یاغستان" کے قبائل کو مجتمع کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں لاکھوں مریدین کو بانیِ پاکستان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ 1940ءمیں آپ نے دہلی میں قائداعظم سے ملاقات فرمائی اور اپنی مؤمنانہ فراست سے مملکتِ خدادادِ پاکستان کے قیام کی پیشین گوئی فرمائی۔
حضرت پیر صاحب کا سرکارِ مدینہ ﷺ سے عِشق والہانہ تھا ۔اپنے آخری عرسِ مبارک پر خِطاب کرتے ہوئے فرمایا :کہ "اے لوگو جو دُور دراز کا سفرکرکے یہاں آئے ہو اور کئی خواہشات لیکر آئے ہو اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالٰی تمہاری آرزوئیں پوری کرے گا،جِس طرح تم لوگوں کہ آرزوئیں ہیں اِس طرح میری بھی ایک آرزو ہے اور وہ آرزو یہ ہے کہ جب قیامت کا میدان ہو اور تمام خَلقِ خدا اکٹھی ہو اور نبی پاک ﷺ مقامِ محمود پر جلوہ افروز ہوں اور آپ سب لوگ ایک ہار کی صورت میں میرے گلے میں ہوں اور میرا سَر نبی پاک ﷺ کے قَدموں میں ہو،اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اگلے عُرس پر آپ مجھے یہاں نہ دیکھیں ۔پھرواقعی ایساہوا آپ کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی،اور18سال تک زِینتِ مسند آرائے قاسمیہ رہنے کے بعد 28/محرم الحرام1380ھ،بمطابق 22/جولائی 1960ء،بروز جمعتہ المُبارک کو شریعت و طریقت کے یہ نَیّرِ تاباں اپنے خالقِ حقیقی سے جا مِلے۔قبر شریف موہڑہ شریف میں ہے جس پر ایک خوبصورت قُبہ مبارک موجود ہے۔