حضرت مخدوم امیر احمد عباسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مخدوم امیر احمد کا تعلق ضلع خیر پور میرس کے گوٹھ کھہڑا کے مشہور ’’مخدوم خاندان سے تھا‘‘ جس نے وادیِ مہران میں اسلامی احکام کے نفاذ میں مثالی خدمات انجام دی تھیں۔ اس خاندان کا سلسلہ نسب نبی اکرم نور مجسم ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے جا ملتا ہے۔ اس خاندان کے مورث اعلیٰ، حضرت محمد ابراہیم تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں بغداد شریف کے بادشاہ معتصم باللہ عباسی کے عہد میں انہی کے حکم سے اسلام و سنیت کی تبلیغ کیلئے سندھ میں تشریف فرما ہوئے ، ان دنوں سندھ، عباسیہ حکومت سے وابستہ تھی۔ حضرت محدم ابراہیم نے حیدرآباد کے شمال میں ایک ٹیلہ پر قیام کیا اور تبلیغ دین کے اہم فریضہ میں مشغول رہے اور ۳۴۸ھ کو انتقال کیا۔ ابراہیم کی اولاد میں سے ایک بزرگ اسد اللہ جس کو ’’مخدوم الملک‘‘ کہا جاتا تھا۔ اکبر بادشاہ کے عہد میں سھد کے قاضی القضا ۃ (چیف جسٹس) مقرر ہوئے اور سندھ کا دورہ کرتے ہوئے خیر پور میرس کے قریب ایک گوٹھ ’’پپری‘‘ میں پہنچے اور وہیں قیام کیا۔ مخدوم قاضیاسد اللہ نے پپری میں مسجد شریف تعمیر کروائی اور وہیں ۹۶۶ھ کو انتقال کیا۔
مخدوم اسد اللہ کے پڑ پوتے مخدوم عبدالخالق نے پپری سے منتقل ہو کر ’’کھہڑا]‘ میں قیام کیا۔ اس کے بعد خاندان نے وہیں کھہڑا میں مستقل قیام کیا اور آج تک ’’درگاہ مخادیم‘‘ مشہورو معروف ہے۔ (مضمون نگار مخدوم امیر احمد، سہ ماہی مہران ۱۹۵۷ئ)
مخدوم امیر احمد کا سلسلہ نسب یوں ہے: امیر بن مخدوم احمدی بن مخدوم عصمت اللہ بن مخدوم احمدی بن مخدوم محمد عاقل بن مخدوم احمد بن مخدوم عبدالرحمن شہید۔ مخدوم امیر احمد ۱۹۰۱ء گوٹھ کھہڑا (تحصیل گمبٹ ضلع خیر پور میرس) میں مخادیم کی حویلی میں تولد ہوئے ۔ بچپن میں والد انتقال کرگئے اس لئے یتیم تھے والدہ ماجدہ کی تربیت اور ماموں جان علامہ مفتی مخدوم اللہ بخش ’’عاصی‘‘ کے سایہ عاطفت میں تعلیم حاصل کی۔ مخدوم امیر احمد بارہ برس کے تھے کہ ان کے ماموں جان بھی انتقال کر گئے۔ بچپن میں فاقہ کشی اور خاندانی اذیت کا شکار رہے۔
تعلیم و تربیت:
۱۹۱۲ء کو سندھی اسکول میں داخل ہوئے، ۱۹۱۶ء کو چوتھی جماعت پوزیشن سے پاس کی جس کے سبب ریاست خیر پور کے حکم تحت سرکاری خرچ پر ناز ہائی اسکول خیر پور میرس میں بڑے اعزاز کے ساتھ داخل ہوئے۔ ہائی اسکول میں فقط ایک ہفتہ گزرا تھا کہ والدہ ماجدہ نے وہاں سے اپنے پاس بلوالیا اور اپنی نگرانی میں دینی تعلیم دلوانے کیلئے حافظ محمد سلیمان کے پاس قرآن مجید حفظ کیلئے بٹھایا۔ دو پارے یاد نہ ہونے پر وہاں سے بھی اٹھوا کر مولانا بخش علی (ساکن ٹنڈو شہباز ضلع دادو) کے پاس بٹھا دیا جو کہ مخادیم کے مدرسہ میں مدرس تھے تین ماہ تک مولانا کے پاس فارسی پڑھتے رہے لیکن اچانک استاد صاحب انتقال کرگئے۔ اس کے بعد اس کی جگہ پر علامہ مولانا محمد ہاشم انصاری نوابشاہی مدرس مقرر ہوئے آپ نے مولانا محمد ہاشم کے پاس تعلیم جاری رکھی فارسی نصاب آٹھ ماہ میں مکمل کیا اور عر بی نصاب فقط چار سال میں پورا کیا اور فارغ التحصیل ہوئے۔
درس و تدریس:
بعدِ فراغت مخدوم امیر احمد نے اپنے آبائی ’’مدرسہ مخدومیہ‘‘ میں تقریباً دو سال درس دیا۔ خاندانی رقابت کے سبب درگاہ مخادیم کو خدا حافظ کہہ کر منتقل ہوگئے۔ ۱۹۲۶ء میں نوشہرو فیروز میں مشہور حکیم قاضی میاں احمدی کے تعاون و امداد سے قاضی مسجد میں مدرسہ قائم کیا جہاں چھ برس تک درس دیا۔ انہی دنوں قرآن پاک حفظ کرنے کا ارادہ ہوا اور بفضلہٖ تعالیٰ آٹھ ماہ میں حفظ کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ اس سے آپ کی ذہانت و ذکاوت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مسٹر انصاری کی کوشش سے ۱۲ مئی ۱۹۲۳ء کو نو شہرو فیروز کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں پہلے عربی کے اُستاد مقرر ہوئے۔(ان دنوں اسی اسکول
میں ملک کے نامور اسکالر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ زیر تعلیم تھے)۔
۱۹۳۸ء کو نوابشاہ کے لوکل بورڈ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر حاجی مہر علی خواجہ کی کوشش و توجہ کے سبب مخدوم امیر احمد نے نو شہرو فیروز کو الوداع کہہ کر نوابشاہ لوکل بورڈ ای ۔ وی اسکول میں عربی استاد مقرر ہوئے۔ یہاں آپ نے اسکول کی تعمیر و ترقی میں بھی بھر پور حصہ لیا
۱۹۴۴ء کو حیدرآباد سندھ میں سندھ کے مشہور ماہرِ تعلیم اور عربی استاد ممتاز اسکالر ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ (جو اس وقت ڈائریکٹر تعلیمات سندھ تھے) اور خطیب اسلام علامہ سید علی اکبر شاہ (میہڑ والے) کی کوششوں سے ’’جامعہ عربیہ سندھ‘‘ (سندھ عربک یونیورسٹی) کی داغ بیل ڈالی گئی تو ۱۹۴۵ء میں مولانا مخدوم امیر احمد کو جوہرِ قابل سمجھ کر شعبہ عربی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ۱۹۴۶ میں جامعہ عربیہ کے پہلے پرنسپل بنائے گئے اور ۱۹۵۳ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ نا مساعد حالات کے باعث جامعہ عربیہ کا منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ڈاکٹر دائود پوتہ کے انتقال کے بعد جامعہ عربیہ کا تعلیمی معیار جو کالج کے معیار تک پہنچا تھا گھٹ کر ہائی اسکول تک رہ گیا۔ آج یہ درسگاہ ہائی اسکول کی شکل میں موجود ہے۔
۱۹۵۳ء کو نامور اسکالر آئی آئی قاضی (وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی جامشورو) نے پنجاب ، الہ آباد اورناگ پور یونیورسٹیوں کی طرز پر سندھ یونیورسٹی سے ملحق ایک علوم شرقیہ کالج کی بنیاد ڈالی توان کی نظرِ انتخاب مخدوم امیر احمد پر پڑی۔ علامہ آئی آئی قاضی نے انہیں ’’سندھ اورینٹیل کالج ‘‘ کا پہلا پرنسپل مقرر کیا اور تاحیات پرنسپل رہے۔ ۵۱۔۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۳ء میں مسلک گرلز کالج میں پارٹ ٹائم میں بی ۔ اے آرٹس کلاس کیلئے عربی کے استاد مقرر ہوئے۔
۱۹۵۵ء میں آپ کی کوششوں سے اسلامیہ ماڈل ہائی اسکول قائم ہوا ۔ جس کے آپ جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ حمایت الالسلام ہائی اسکول و کالج حیدرآباد کے قیام میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔حمایت الاسلام ایسوسی ایشن کے بھی سر گرم کارکن رہے۔
علمی مقام:
ڈاکٹر بلوچ صاحب رقمطراز ہیں: مخدوم صاحب کا سندھ کے چوٹی کے عُلما اور اُدباء میں شمار ہوتا تھا۔ عربی لغت و ادب میں کامل دسترس رکھتے تھے ان کے پائے کا شاید ہی کوئی دوسرا سندھی عالم ہو۔ بندہ راقم جونا گڑھ میں زیر تعلیم تھا ان دنوں انٹر آرٹس کے عربی کورس میں ’’ابن دردی‘‘ کا مشہور قصدیدہ (جو ’’مقصورہ ابن درید‘‘ کے نام سے مشہور ہے) تھا۔ یہ قصیدہ نہ صرف کلاسیکل رنگ میں تحریر ہے بلکہ نہایت مشکل عربی الفاظ ، محاورے اور استعاروں پر مشتمل ہے۔ ابن درید عربی لغت کے امام مانے جاتے ہیں۔ تعطیلات میں گھرآگیا اور نوابشاہ جا کر مخدوم صاحب کی خدمات حاصل کیں اور ان سے ’’مقصورہ‘‘ پڑھنا چاہا دل کو یقین نہیں آرہا تھا کہ سیدھے سادے مکتب کے استاد، کالج کی مشکل کتاب کیسے پڑھا سکتے ہیں لیکن جب درس لیا توسارے وہم و گمان ختم ہوگئے حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مخدوم صاحب نے بلا کسی تکلُّف کے پورا مقصورہ لفظ بلفظ مجھے سمجھا یا۔ میرے پاس کتاب کا ایک نسخہ ہوا کرتا تھا جو کہ میرے سامنے ہوتا اور مخدوم صاحب سامنے بیٹھتے تھے اس طرح ان کی طرف کتاب الٹی ہوتی تھی اس کے باوجود بڑے اطمینان اور سکون سے پڑھاتے تھے۔
اعزازات:
سندھ یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے ممبر
سندھ طبیہ کالج کی مجلس عاملہ کے ممبر
۱۹۵۶ء کو سندھ یونیورسٹی کی جانب سے اعزازی طور پر یونیورسٹی کے بی اے اور ایم اے کے طلباء کو عربی پڑھاتے تھے۔
آپ نے مخدوم ٹھٹوی کی کتاب ’’بذل القوۃ‘‘ پر کام کیا جس کے سبب سندھ یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ (پی ۔ ایچ۔ ڈی) کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن ان کی وفات کی وجہ سے اس فیصلہ پر عمل درآمد نہ ہوسکتا۔
سفر حرمین شریفین:
آپ ۱۹۵۲ء میں مکہ مکرمہ میں حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت سے لطف اندوز ہوئے۔
تلامذہ:
طلباء کی طویل فہرست میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں:
٭ نامور اسکالر و دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ حیدرآباد
٭ مولانا پیر فضل احمد سرہندی شکار پور
٭ مولانا عبدالحق شکار پوری
٭ حکیم قاضی عبدالہادی نو شہرائی
٭ مولانا محمد صادق برڑو ٹھاروشاہ
٭ مولانا محمد دائود بگھیو تحصیل مورو
تصنیف و تالیف:
قیام حیدرآباد کے بعد آپ نے سندھی ادب کے اکثر حلقوں میں حصہ لیا۔ شاہ عبداللطیف یاد گار مخزن اور دیگر علمی ادبی رسائل میں آپ کے مضامین شائع ہوئے تھے۔ اورینٹیل کالج کی "مخزن" آپ کی نگرانی میں شائع ہوتی تھی۔ (سہ ماہی مہران ۱۹۵۷ء سوانح نمبر)
٭ بذل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ: علامہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قدس سرہ کی عربی تصنیف پر کام کیااور ایک طویل مقدمہ سپرد قلم فرمایا جو کہ آپ کی محنت شاقہ اور تحقیق کا شاہکار ہے۔ سندھی ادبی بورڈ جامشورو نے انہیں پہلی بار ۱۹۶۶ء کو شائع کیا۔ حال ہی میں اس کتاب کا اردو ترجمہ محترم مفتی محمد علیم الدین نقشبندی نے بڑی محنت و عرق ریزی سے کیا ہے جسے ادارہ مظہر علم لاہور نے ’’سیرت الانبیاء‘‘ کے نام سے ربیع الاول ۱۴۲۱ھ/جون ۲۰۰۰ء کو شائع کیا ہے۔
٭ حیاۃ القاری فی اطراف صحیح البخاری: یہ کتاب بھی امام اہلِ محبت علامہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی قدس سرہ کی عربی تصنیف ہے۔ مخدوم امیر احمد نے اس کے قدیم مخطوطے پر ۱۹۵۲ء میں ایک مبسوط مقدمے اور تصحیح و حواشی کے ساتھ بھر پور کام کیا۔ ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔
٭ تاریخ معصوم (سندھی): میر معصوم فاضل بکھری کی تاریخ سندھ پر تصنیف ہے جو کہ فارسی میں تھی اور مخدوم امیر احمد نے پہلی بار اس کا سندھی ترجمہ کیا اور سندھی ادبی بورڈ کی جانب سے ۱۹۵۳ء کو شائع ہوئی۔
٭ تحفۃ الکرام (سندھی): تاریخ سندھ کے متعلق مورخ میر علی شیر قانع ٹھٹوی کی فارسی میں تصنیف ہے۔ مخدوم صاحب نے اس کا سندھی ترجمہ و ضروری حواشی و دیباچہ کے ساتھ تحریر کیا جو کہ ۱۹۵۷ء کو سندھی ادبی بورڈ کے زیر اہتمام پہلی بار شائع ہوا۔ طبع ثانی ۱۹۷۸ء طبع ثالث ۱۹۸۹ء کو منظر پر آیا۔
٭ فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ :(منہاج الملک کی عربی تصنیف کا فارسی ترجمہ علی بن حامد ابو بکر کوفی نے ۶۱۳ھ کو کیا تھا) فارسی نسخے کا سندھی ترجمہ مخدوم امیر احمد نے کیا ۔ جو کہ سندھی ادبی بورڈ جامشورو کے زیر اہتمام پہلی بار ۱۹۵۴ء کو شائع ہوا۔
٭ الدین الکامل: (سندھی) یہ کتاب یدن اسلام کے ضروری احکام و مسائل پر مشتمل ہے اسکولوں و کالجوں کے نصاب میں شامل تھا۔
٭ سر زمین سندھ میں علم حدیث:(اردو) یہ علمی و تاریخی مقالہ مخدوم صاحب کی تصنیف ہے۔ مخدوم صاحب نے اس گراں مایہ تصنیف کا ایک حصہ مقالے کی صورت میں کل پاکستان تعلیمات کانفرنس حیدرآباد(سندھ) منعقدہ ۱۹۶۳ء کو پرھا تھا۔ موصوف اس وقت سندھ اورینٹیل کالج حیدرآباد کے پرنسپل اور شاہ ولی اللہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔ ابھی تک یہ علمی خزانہ کتابی شکل میں شائع نہیں ہوا البتہ اس کے بعض حصے دو قسطوں میں "ماہنامہ الرحیم" حیدرآباد بابت جولائی/اگست ۱۹۶۳ء کے دو شماروں میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔
٭ مخدوم امیر احمد نے ’’رسالہ شاہ عبداللطیف بھٹائی‘‘ منظوم سندھی کا اردو نثر میں ترجمہ سندھ یونیورسٹی کی فرمائش پر کیا تھا۔ ترجمہ سلیس اور رواں ہے۔ اردو میں کلام لطیف کی عمدہ شرح بھی شامل ہے۔ کلام لطیف کا یہ ترجمہ اب تک شائع نہ ہوسکا۔ اس کا اصل قلمی نسخہ مخدوم امیر احمد کے بیٹے مولانا مخدوم غلام احمد کے پاس محفوظ تھا۔
٭ آشکار(فارسی): سچل سرمست کے کلام کو ترتیب دے کرنوائے وقت پریس لاہورنے چھپوایا۔
٭ امام مشوری قدس سرہ کی سندھی تصنیف ’’فصل الخطاب فی لزوم الستراوالحجاب‘‘ پر مخدوم امیر احمد نے عورت کے پردے کی حمایت میں زوردار تقریظ سندھی میں رقم کی تھی۔ مطبوعہ مشوری شریف ۱۹۹۰ئ۔؎
کتب خانہ:
آپ کے اورینٹیل کالج کے کتب خانے میں مختلف علوم و فنون اور قدیم و جدید کتب رسائل اور قلمی مخطوطات کا عمدہ ذخیرہ جمع ہو گیا تھا۔ (مہران نقش ص۲۲۸)
اولاد:
اولاد میں مولانا مخدوم غلام احمد کا نام مشہور ہے۔
وصال:
مخدوم امیر احمد نے پوری زندگی جہد مسلسل میں صرف کی اور لازوال خدمات انجام دینے کے بعد یکم محرم الحرام ۱۳۹۱ھ بمطابق ۲۶ فروری ۱۹۷۱ء کو حیدرآباد (سندھ) میں انتقال کیا۔ درگاہ شریف مخادیم کھہڑا کے قدیم خاندانی قبرستان (ضلع خیر پور میرس سندھ) میں آپکی آخری آرامگاہ واقع ہے۔
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)