مخدوم آدم نقشبندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
مخدوم آدم بن عبدالاحد بن عبدالر حمان بن عبدالبا قی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سیّدنا صدّ یق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسلِ پاک سے تھے ،آپ سندھ میں شیخ آدو کے لقب سے مشہور ہیں،سندھ میں سلسلۂ نقشبندیہ کے پہلے بزرگ آپ ہی ہیں۔ آپ کے اَجداد میں دو بھائی تھے:
بڑے بھائی کا نام عبدالباری اور چھوٹے کا نام عبدالخالق تھا۔
مخدوم عبدالخالق ٹھٹھہ میں اقا مت پزیر تھے،جب سلطان محمود غزنوی نے سندھ پر قبضہ کیا تو مخدوم وعبدا لخالق کے علم و عمل اور زہدوتقویٰ سے متا ثر ہو کر ان کو شاہی اعزازات سے نوازا ،مخدوم آدم انھی کی اولاد میں سے ہیں۔
مخدوم آدم کو جب بادشاہ عا لمگیر کی دوستی کا حال معلوم ہوا تو آپ ٹھٹھہ سے دہلی آئے، یہاں آپ کی ملاقات حضرت مجددِ الفِ ثانی کے صاحبزادے خواجہ معصوم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ہو ئی،خواجہ صاحب پہلی ہی نگا ہ میں آپ کے جوہرِ قا بل کو بھانپ گئے اور آپ کو اپنے صا حب زادوں کی تعلیم پر مامو ر کردیا۔
شیخ عبدالرحیم گڑ ہوری کا بیان ہے کہ ابتداءً مخدوم آدم کو خو اجہ محمد معصوم سے عقیدت نہ تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ٹھٹھہ سے ملتان تک پو رے سندھ میں آپ کے ہم پایہ کو ئی عالم نہ تھا،علم و فضل کا یہ کمال عقیدت و نیاز مندی سے بے نیاز تھا،ایک مرتبہ خواجہ محمد معصو م نے نہا یت شفقت و محبّت سے مخدوم آدم سے آیاتِ کریمہ:
وَالطُّوْرِۙ﴿۱﴾ وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍۙ﴿۲﴾ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍۙ﴿۳﴾
وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِۙ﴿۴﴾
ترجمہ: طور کی قسم! اور اس نوشتہ کی جو کُھلے دفتر میں لکھا ہے ۔ (کنز الایمان)
کے معنیٰ پو چھے ،مخدوم نہا یت ہی تو جہ اور وضاحت سے آیات کے معانی کی وضاحت کر رہے تھے؛ اسی دوران خواجہ محمد معصوم نے اپنی توجّہِ باطنی سے ان پر عرفان و حقیقت کی را ہیں کھول دیں۔ اس کیمیا نگاہ کا یہ اثر ہوا کہ مخدوم آدم نے اسی وقت آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کرلی۔
پھر ایک طویل عرصہ آپ نے مجاہدوں اور ریاضات میں بسر کیا، سات سال تک آپ پر استغراق کی کیفیت طاری رہی،سلو ک کی منازل طے کرانے کے بعد خواجہ صاحب نے آپ کو خلافت دے کر تبلیغِ اسلام کا فریضہ سو نپا اور سر زمینِ سندھ میں آپ کو دعوتِ حق پر مامور کیا،مخدوم آدم نے عرض کیا کہ حضور تعمیلِ ارشاد سے سرتابی کی تاب نہیں مگر حقیت یہ ہے کہ سندھ میں اس قدر مشا ئخِ کرام ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے میری طرف کوئی متوجّہ نہیں ہوگا۔ آپ کے مرشد نے فرمایا جا ؤ، سارا سندھ بھی اگر مشا یخ سے بھرا ہو تو اس کی پروا نہ کرو۔ آپ سندھ میں تشریف لائے اور آپ کا ستارہ اوجِ کمال پر پہنچا۔
مخدوم آدم بلند مر تبت ہو نے کے باوجود اپنے ہم عصر بزرگوں کی بڑی عزّت و توقیر کرتے ایک اور بزرگ مخدوم آدم بن اسحاق آپ کے ہم نام اور ہم عصر تھے آپ ان کی انتہائی تعظیم کر تے اور لوگوں سے فرماتے مجھے آدم کے بجائے آدو کہا کرو،اس لئے کہ اس شہر میں دو آدم رہتے ہیں۔
مخدوم آدم کے دو صا حبز ادے:
مخدوم فیض اللہ اور مخدوم اشرف
تھے۔
دونوں صا حبزادے علم و فضل اور ورع وتقویٰ میں ممتاز تھے،آپ نے وفات کے وقت مخدوم فیض اللہ کو اپنا جا نشین بنایا، کچھ دن بعد یہ دونوں صاحبزادے سر ہند حاضر ہوئے اور فیوض و برکات پاکر پھر سندھ واپس آئے۔ افسو س کہ والد کی وفات کے کل پانچ سال بعد دونوں جو انی میں وصال پاگئے اور اپنے والد ہی کے پہلو میں مشر قی جانب مد فون ہوئے۔
مخدوم آدم سلسلۂ نقشبندیہ میں بڑے صاحبِ کمال اور عالی مقامات پر فائز سمجھے جائے تھے،بے شمار تاریک دل آپ کی مشعلِ ہدایت سے منوّر ہوئے اور لاتعداد لوگوں نے آپ کی بر کت سے راہِ نجات اپنائی،آپ جامعِ شریعت و طریقت تھے اور مظہرِ اسرار صوری و معنو ی تھے۔
آپ کے مرید ین اور خلفا میں شیخ ابو القا سم شیخ ابراہیم ،سیّد فتح محمد اور شیخ انس مشہور ہیں ،مخدوم صا بر دولھاری نے بھی آپ سے استفا دہ کیا تھا۔آپ کا مزار مکلی ٹھٹھہ میں مرجعِ خلائق ہے ۔
(’’اخبار الاخیار‘‘، ص ۳۲۲؛ مرغوب الاحباب تذکرہ شیخ آدم و تحفۃ الکرام، ج ۳ ص ۲۳۵، تحفۃ الطاھرین، ص ۷۸)
(تذکرہِ اولیاءِ سندھ)