شیخ صفی الدّین عبد الصمد علیہ الرحمۃ
آپ شیخ علم الدین سائی پوری قدس سرہٗ کے فرزند تھے۔ کامل ترین اولیاء میں آپ کا شمار ہوتا ہے آپ شیخ سعد الدین خیر آبادی کے خلفائے عظام میں سے ہیں۔ آپ مرجع خواص و عوام تھے۔ حقائق کے اظہار اور طالبانِ طریقت کی تربیت میں آپ کو کامل دستگاہ تھی۔ اپنے مرشد کی طرح تجرد کے عالم میں زندگی گزار دی۔ (غیر شادی شدہ رہے) آپ بارہ سال کی عمر میں سائی پور سے خیر آباد آئے۔ خانقاہ شیخ سعد الدین رحمۃ اللہ علیہ میں قیام فرمایا۔ اور تحصیل علم میں مشغول ہو گئے۔ ایک دن شیخ سعد الدین کی نگاہ شیخ صفی الدین پر پڑی۔ سامنے بلایا اور حالات پوچھے۔ جب ان کے والد کا نام (شیخ علم الدین) سنا تو حد درجہ التفات فرمایا۔ اور کامل مہربانی سے پیش آئے اس سابقہ معرفت کی بنا پر جو حضرت شیخ سعد الدین رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ بڑی شفقت کےساتھ بذاتِ خود ان کی تربیت فرمائی شیخ صفی عرصہ تک حضرت شیخ کی خدمت میں استفادہ کے لیے حاضر رہے۔ اور سعادت ارادات سے مشرف ہوئے (آپ کے مرید ہوئے) اور بہت سی شائستہ خدمات بجا لائے۔
ایک رات شیخ نے ان سے مولی کی فرمائش کی۔ کہ اس وقت کسی جگہ سے مولی لاؤ۔ شیخ صفی نے کوئی عذر نہیں کیا۔ کہ آدھی رات ہے اور مولی کا کوئی موسم بھی نہیں ہے۔ عرض کیا جاتا ہوں اور تلاش کر کے لاتا ہوں خیر آباد میں گلی گلی تلاش کیا اور محلہ محلہ دوڑتے پھرے اس وقت لوگ اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے سو رہے تھے اس آدھی رات کومولی کے بارے میں کس سے معلوم کریں۔ حیران و پریشان ایک جگہ بیٹھ کر رونے لگے۔ ایک شخص اپنے گھر میں جاگ اٹھا اور کہا کہ کوئی مصیبت زدہ رو رہاہے۔ اس کی خبر لینی چاہئے۔ صاحب ِخانہ باہر دوڑ کر آیا اور پوچھا تم کون ہو؟ اور کیوں روتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو مولی کی ضرورت ہے اس شخص نے کہا کہ مولی کا یہ زمانہ تو ہے نہیں اتنے میں دو اور شخص بھی آگئے۔ ان میں سے ایک عورت نے کہا کہ فلاں شخص کے گھر میں دیکھا ہے کہ مولی لگی ہوئی ہے۔ سب لوگ ان کے ساتھ اس جگہ پہنچے اور اس گھر کے مالک کو جگایا اور مولی کی درخواست کی۔ صاحب خانہ نے دو مولیاں پانی سے دھو کر شیخ صفی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ کر دیں۔ شیخ صفی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دونوں مولیاں شیخ کے سامنے پیش کیں۔ شیخ بہت مسرور ہوئے اور دعا فرمائی کہ تمہارا جو بھی مشکل کام ہوگا جو بھی سخت معاملہ تم کو پیش آئے گا۔ انشاء اللہ آسان ہو جائے گا۔ اس کے بعد شیخ نے ان کو چلّہ میں بٹھایا۔ تیسرے ہی دن کا میاب ہو گئے۔ اور علوّیات اور سفلّیات سب ان کے سامنے ظاہر ہو گئے۔ خرقہ خلافت کی خلوت سے نوازے گئے۔ اور شیخ کے تمام خلاء سے مقام معرفت میں آگے بڑھ گئے۔ آپ سالہا تک مسند ارشاد پر متمکن رہے۔ اور سالکین طریقت و ہدایت کو منزلِ مقصود تک پہنچاتے رہے میر عبد الواحد بلگرامی کی کتاب "حل شبھات" میں لکھتے ہیں کہ:
"ابتدائے حال میں علم شریعت و طریقت کی بعض مشکلات میں تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ میں نے دل میں یہ طے کیا کہ ساری دنیا میں پھروں گا تاکہ کسی ایسے شخص سے ملاقات ہو جائے جو میری ان مشکلات کو حل کر دے جب میں روانہ ہوا تو پہلی ہی منزل پر قیلولہ کے وقت پیر دستگیر یعنی مخدوم شیخ صفی رحمۃ اللہ علیہ کو میں نے خواب میں دیکھا اور اپنی طرف بکمال لطف و کرم متوجہ پایا فقیر کے دل میں خیال آیا کہ اس وقت چونکہ حضرت مخدوم موجود ہیں۔ لہذا اب مسافت کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر مخدوم کے حضور میں جانے کی نیّت سے وضو کرنے کے لیے اٹھا۔ قاضی اللہ داد قدائی جو مخدوم کے مریدوں میں سے تھے میرے عقب سے آئے۔ اور مجھ سے کہا کہ تم کو حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ طلب فرماتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ میرا دل نہیں چاہتا کہ فلاں شخص (یعنی تم) کسی اور جگہ جائے۔ فقیر فوراً واپس ہوا اور حضرت کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو گیا دریافت کیا کہ قاضی اللہ داد نے یہ بات زبانِ مبارک سے سن کر مجھ تک پہنچائی ہے؟ ارشاد فرمایا "ہاں ایسا ہی ہے"۔ جب میں خواب سے بیدارہوا تو قیام اور سفر کے بارے میں متردّد تھا۔ (یعنی سفر کروں یا قیام کروں) بالآخر میں نے خود ہی طے کیا کہ اگر دوسری مرتبہ ایسا ہی خواب دیکھوں گا تو سفر سے باز رہوں گا۔ دوسری مرتبہ بھی میں نے وہی خواب دیکھا جو پہلے دیکھا تھا۔ لہذا فوراً واپس ہوا۔ اور خانقاہ میں مزار پاک کے پائتیں کم و بیش چالیس روز تک معتکف رہا۔ اور ان تمام علمی مشکلات کے اطمیان جوابات بخش مجھے مل گئے اور اس نسخہ میں وہ تمام سوال و جواب میں نے تحریر کیے ہیں۔ (یعنی سنابل ہیں)۔
نیز میر عبد الواحد رحمۃ اللہ علیہ "سنابل" میں لکھتے ہیں۔
"کہ خانقاہِ شیخ سعد قدس سرہٗ میں "صفیا" نام کا ایک غلام زادہ تھا۔ جب کوئی شخص اس کو بلاتا شیخ صفی رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہٗ اس کا جواب دیتے۔ اور وہاں حاضر ہو جاتے اور کبھی بھی ان کے دل میں یہ خیال نہیں گزرا کہ مجھ کو کوئی شخص "صفیا" نہیں کہے گا۔
ہر کہ در خود دید روئے کس ندید |
مرداز خود رستہ راحق بر گزید |
شیخ صفی رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہٗ فرماتے ہیں۔ کہ درویشی کا راستہ موت کا راستہ ہے یعنی موتوا قبل ان تموتوا (اپنی موت سے پہلے مر جاؤ) اور لوگ سامانِ زندگی کے ساتھ اس راہ میں قدم رکھتے ہیں۔ اور اکثر لوگ فقیری کے سکہ کو حصولِ رزق کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اور مخلوق کی پسندیدگی اور ان کی آمد کے متوالے ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ شیخ فاضل دانشمند ایک بادشاہ کے پاس گئے تھے۔ مگر دربان نے جانے نہ دیا تب انہوں نے یہ شعر پڑھا۔
سرو راسرھنگ رافرمان بدھ |
دست دربان بشکند یا پائے من |
شیخ صفی قدس سرہٗ کی وفات ۱۹،محرم ۹۳۳ھ کو ہوئی۔ میر عبد الواحد نے تاریخِ وفات اس طرح نکالی۔ "شیخ پاک"
آپ کی آرام گاہ[1] سائی پور میں ہے۔
[1]شیخ صفی سے بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے استفادہ کیا ہے۔ منجملہ ان کے شیخ فضل اللہ جون پوری ۱۰۰۵ھ بھی ہیں۔ جو برہان پور میں مرجع انام ہوئے۔ دوسرے شیخ نظام الدین رضوی خیر آبادی( ۹۹۳ھ) ہیں جو سید محمود حسینی شیورانی کی نسل سے ہیں۔