حضرت میر عبد الجلیل بن میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمۃ
میر عبد الواحد نے دو شادیاں کیں۔ جن سے چار صاحب زادگان اور تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں پہلی زوجہ محترمہ سے میر عبد الجلیل اور ایک صاحبزادی اور دوسری حرم سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ پہلی زوجہ محترمہ کے بطن سے پیدا ہونے والے میر عبد الجلیل کو میں نے دیکھا ہے۔ میر عبد الجلیل کی ولادت اول وقت ظہر میں پنج شنبہ کے دن ۲۰/رجب ۹۷۲ھ کو ہوئی۔
میر عبد الجلیل، قوی جذبہ اور اعلیٰ کیفیات کے حامل تھے۔ عنفوانِ شباب ہی میں وحشت دل نے دامنِ دل پکڑ لیا۔سب سے بے تعلق ہو کر ویرانہ میں چلے گئے۔ اور بارہ سال تک درویشی کے لباس میں دنیا کی سیر کرتے رہے اکثر اوقات جنگل اور وادی میں بسر کرتے تھے۔ جنگلی گھاس اور پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے۔ مخلوق سے بالکل بے تعلق تھے۔ اس دو سالہ مدت میں کہیں سے بھی ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ اقرباء مایوس ہو گئے جب بارہ سال گزر گئے تو اس زمانہ میں جب کہ حضرت بدیع الدین شاہ مدار اقدس سرہ کا عرس ہوتا ہے۔ اور لوگ دور دراز سے زیارت کے لیے آتے ہیں تو آپ بھی زائرین کی جماعت کے ساتھ بلگرام پہنچے کیونکہ حضرت شاہ مدار کا مزار شریف بلگرام سے بارہ میل پر ہے۔ جب بلگرام میں داخل ہوئے تو اتفاق سے ان کا گذر ان کی حقیقی بہن کے مکان کے قریب سے ہوا۔ میر صاحب اس زمانہ میں اکثر بحالتِ بے خودی نعرے لگایا کرتے تھے۔ اتفاق سے بہن کے گھر کے سامنے انہوں نے نعرے لگایا۔ ان کی بہن نے اتنی مدّت کی جدائی اور بھائی کی زندگی سے مایوس ہونے کے باوجود آواز پہچان لی۔ اور کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبد الجلیل کی آواز ہے اور بے اختیار دوڑتی ہوئی دروازہ تک آگئیں اور بھائی کو لپٹا کر زار زار رونے لگیں۔ میر صاحب نے نہ پہچانتے ہوئے بہت چاہا کہ ان کو اپنے سے الگ کر دیں لیکن محبت اور خون نے جوش مارا اور ان کی وحشت محبت میں بدل گئی۔ وہ پرہیز گار بی بی، میر صاحب کو گھر میں لے گئیں۔ اور رفتہ رفتہ کپڑے پہننے کا ان کو عادی بنایا۔ کچھ عرصہ بعد میر صاحب کی شادی ہو گئی۔ اور متاہلی زندگی بسر کرنے لگے۔ آخری عمر میں بلگرام سے مضافات آگرہ کے قصبہ مارہرہ شریف لے گئے۔ اور وہیں مقیم ہو گئے اور یہیں سفر آخرت اختیار فرمایا۔ (وصال فرما گئے) ان کی وفات ۸/صفر ۱۰۵۷ھ دو شنبہ کے دن واقع ہوئی مارہرہ میں آپ کا مزار مبارک زیارت گاہ عوام ہے۔ میر عبد الجلیل کے تین صاحبزادے ہوئے ان میں چھوٹے صاحبزادے سید اویس قدس سرہٗ نے اپنے والد ماجد کے بعد ہدایت کا مصلّیٰ بچھایا۔ (جا نشین ہوئے) جناب اویس ایمان کے یمن اور فلکِ عرفان کے سہیل تھے۔ انہوں نے ابدال کے طریقہ کو اختیار کیا۔ (مرتبہ ابدال پر فائز ہوئے) کسی ذی روح کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ یہاں تک کہ کسی موذی کو بھی تکلیف نہیں پہنچائی۔ تمام فضائل اخلاق سے آراستہ تھے۔ اگر کسی مزدور سے بھی کوئی کام لیتے تو موسم گرما میں گرمی کی شدت کے وقت اور جاڑے کے موسم میں شدید سردی کی صورت اپنی شفقت کے باعث مزدور سے کام نہیں لیتے۔ اور لطف و کرم سے پیش آتے۔ بایں ہمہ مزدور کو پوری پوری اجرت دیتے۔
۲۰/رجب ۱۰۹۷ھ کو سبزہ زارِ اقدس کی جانب خراماں ہوئے۔ ان کی خواب گاہِ ابدی بلگرام میں سرِ راہ واقع ہے۔ اور عزیبانہ صورت سے اس میں آرام فرما ہیں یعنی مز ارشان و شوکت سے عاری ہے شاہ جلال بد خشی نے جو خرد تخلص کرتے تھے۔ آپ کی تاریخ وصال اس طرح کہی۔
مقبول خدا اویس ثانی |
از دارِ ملال بست محمل |