حضرت میر سید طیب علیہ الرحمۃ
آپ میر عبد الواحد کےچوتھے صاحب زادہ اور سجادہ نشین تھے۔ (قدس سرہم) میر عبد الواحد کے ایک نوشتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید طیب کی ولادت یکشنبہ کے روز تقریباً ڈیڑھ پہر گذرنے کے بعد ۹/ربیع الآخر ۹۸۶ھ کو ہوئی۔ وہ ایسی ذاتِ مقدّس تھی کہ اگر جن وانس اس پر ناز کریں تو زیب دیتا ہے۔ اور اگر زمین و زمان اپنی ذات پر فخر کریں تو بجا ہے۔
صاحب مرأۃ المبتدین جو حضرت میر کے ہم عصر تھے تحریر کرتے ہیں:
"میر سید طیّب (اللہ ان کی عمر دراز کرے اور ان کی دولت زیادہ کرے) آج دنیا کا نظام اور بنی آدم کی برکت ان کے ہی دم سے ہے اور قطبیت، ابدالیّت، غوثیّت ، اوتادیت اور جو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ان کی ذات میں موجود ہے یہ سب کمالات اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں ودیعت فرما دیتے تھے۔ کثرت عبادت کا یہ عالم تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ سینکڑوں کرامات کے ساتھ پھر ظاہر ہو گئے ہیں۔ آپ نے جس دن سے شہود کی حد میں قدم رکھا کوئی نماز قضا نہیں کی۔ اگر ان کا وجود اس دور سے قبل ہوتا مجتہدین اور سلفِ صالحین میں شمار ہوتا اور اگر آج کوئی شخص ائمہ سلف کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ میر سیّد طیّب کو دیکھ لے۔ اور میری (مؤلف مرآۃ المبتدین) کی کیا مجال کہ ان کے مقامات اور احوال کو بیان کر سکوں، اس کے لیے تو خاص زبان، خاص دل اور مخصوص فہم چاہئے۔ آج ایسی زبان جوان کی تعریف و توصیف کر سکے کہاں ہے؟ اور وہ دل جو ان کی حقیقت کو پاسکے اور وہ فہم جوان کے حال سے واقف ہو کہاں؟ یہ مدعی تو بس اسی قدر جانتا ہے کہ دنیا کا نظام انہی کی ذات سے ہے اور وہ جو پیغمبر خداﷺ نے فرمایا کہ ہر سو ۱۰۰ سال بعد ایک شخص پیدا ہوگا جو ہماری سنت کو تازہ کرے گا۔ آج ایسا وجود میرے سید طیّب ہی کا ہے"۔؎
ہم بریں نکتہ ختم شد مقصود |
للہ الحمد ذی العلاء والجود |
(مرآۃ المبتدین)
آنجناب نے تمام ظاہری و باطنی کمالات اپنے والد ماجد سے حاصل کیے اور ان کے وصال کے بعد استحقاق ذاتی کے ساتھ ان کے سجادہ نشین ہوئے۔ اور طالبانِ الہی کو سلوک کی ابتداء سے وصول کی انتہا تک پہنچایا۔ سیرت نبوی (علی صاحبہا الصلوۃ والسّلام) کی اتباع اپنی تمام حرکات و سکنات میں پیش نظر رکھتے تھے تا بحدِ امکان تمام عمر کوئی سنتِ نبوی ترک نہیں کی۔ علوم رسمی میں تبحّر تو ان کے دریائے کمال کی ذرا سی نمی تھی۔ ہمیشہ محصّلین کے افادہ میں مشغول رہتے تھے۔ اکثر لوگوں کو اپنی تربیت کی تبرکات سے استادی کے بلند مقام پر پہنچادیا۔ بعض درسی کتابیں جیسے ہدایہ (فقہ) تفسیر بیضاوی وغیرہا ان کے دستِ خاص سے محشیٰ آج بھی موجود و محفوظ ہیں۔ جو ان کے کمال تبحّر اور ان کی جودت فکر کی دلیل ہے۔ سید العارفین میر شاہ لدّھا قدس سرّہٗ کے صاحبزادہ سیّد کرم اللہ ارشاد فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص روئے زمین پر فرشتہ دیکھنا چاہتا ہے تو میرے سید طیّب کو دیکھ لے۔ سید العارفین نے آنجناب سے استفادہ فرمایا ہے۔ اور آپ کو مرشدی کے لفظ سے یاد کرتے تھے اور فرماتے تھے۔
ایک دن ایک عزیز میر سید طیّب کی زیارت کا مشتاق ہوا اور میر سید طیّب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے توحید کا ایک مشکل مسئلہ نہیں معلوم اور لوگوں کی نگاہ میں اپنے قصورِ علمی اور مسائل کے وقوف میں کمی کی مطلق پرواہ نہیں کی جب مجلس ختم ہوئی اور تنہائی کا موقع ملا۔ تو حضرت میر رحمۃ اللہ علیہ نے سائل سے فرمایا گھر کی بات بازار میں نہیں کہنی چاہئے اب جو کچھ تم چاہو پوچھو!
حضرت شیخ عبد الحق محدّث دہلوی قدس سرہٗ اور حضرت میر مجتبیٰ رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان بڑی محبت تھی شیخ عبد الحق ان کی بزرگی کے سبب ان کو شیخ طیّب کہتے تھے۔ زمانہ پیری میں ایک مرتبہ شیخ عبد الحق محدّث دہلوی قدس سرہٗ درس دے رہے تھے۔ کتاب میں ایک جگہ شبہ میں پڑ گئے اس وقت میر سیّد طیّب کو انہوں نے یاد کیا اور فرمایا کہ اگر شیخ طیّب اس وقت موجود ہوتے تو بآسانی اس مقام کو حل کر دیتے۔ میر سید طیّب جو دہلی کے لیے اپنے وطن سے نکلے تھے اچانک اسی وقت کمر بستہ سیدھے شیخ عبد الحق محدث علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پہنچے۔ شیخ محدث بہت ہی مسرور ہوئے۔ فرمایا مرحبا! مرحبا! ہم اس وقت آپ ہی کو یاد کر رہے تھے۔ اور درس کے اس مشکل مقام کا ذکرکیا اور بتایا اور اس تقریب سے آپ کو یاد کیا تھا۔کتاب آپ کے سامنے لے آئے۔ میر سیّد طیّب نے کتاب ہاتھ میں لے کر کچھ دیر تاتل کیا اور عبارت کو کچھ اس طرح پڑھا۔ کہ بغیر کچھ مزید کہے خود بخود مطلب واضح ہو گیا۔ حضرت شیخ محدّث نے اس وقت موجود لوگوں سے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ شیخ طیّب اس مقام کو با آسانی حل کر دیں گے ان ہی دنوں شیخ عبد الحق کے صاحبزادہ شیخ نور الحق بادشاہِ وقت کے حکم سے دارالسلطنت آگرہ میں قضاۃ کے عہدے پر متمکن تھے شیخ عبد الحق نے میر سید طیّب سے پوچھا! کس راستہ سے آنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے فرمایا آگرہ کے راستہ فرمایا نور الحق سے ملاقات ہوئی تھی؟ میر صاحب نے کہا کہ سفر کی مصروفیت نے ملاقات کی فرصت نہیں دی۔ شیخ نے فرمایا کہ ظاہر میں یہ وجہ ہے کہ اس نے چونکہ قضاۃ (ججی کے عہدے) کا عہدہ قبول کر لیا ہے۔ اس لیے آپ سے یہ عدم توجہی ظہور میں آئی۔ پھر چند جملے اپنے صاحبزادہ کی تعریف میں زبان مبارک سے ارشاد فرمائے اور فرمایا کہ اگر چہ وہ میرا بیٹا ہے مگر باپ کی جگہ ہے۔ اگر چہ میرا شاگرد ہے مگر استاد کی جگہ اور اگرچہ میرا مرید ہے مگر میں اس کو پیر سمجھتا ہوں۔ میر سیّد طیّب شیخ کے سامنے سے اس طرح اٹھے۔ گویا کمر کھولنے کے ارادہ سے اٹھ رہے ہوں اور بغیر شیخ کی اطلاع کے اسی طرح کمر بستہ واپس آگرہ کی جانب چل پڑے۔ اور شیخ نور الحق سے ملاقات کر کے لوٹے شیخ عبد الحق میر صاحب کے اس حسنِ خلق سے بہت خوشی ہوئے اور بڑی معذرت کا اظہار فرمایا (کہ میرے چند جملے کہنے کی وجہ سے آپ کو یہ زحمت گوارا کرنا پڑی)۔
سید ضیاء اللہ بلگرامی نے جن کا ذکر فصلِ ثانی میں آئے گا ایک دن میر سیّد طیّب سے ملنے کا ارادہ کیا اور یہ خیال کیا کہ اگر آج میر صاحب اپنے ہاتھ سے مجھ کو ایک بیڑا پان کا کھلائیں گے تو میں ان کی ولایت کا قاتل ہو جاؤں گا جب وہ مجلسِ منور کی حضوری میں کامیاب ہوئے تو حضرت میر صاحب کو یہ بات روشن ہو گئی اپنے“بلّو ” نامی خادم کو حکم دیا کہ کہ پان کے بیڑے لائے۔ خادم بیڑے لے آیا۔ حضرت میر رحمۃ اللہ علیہ نے بیڑوں کو تمام حاضرین محفل میں تقسیم فرما دیا اور سیّد ضیاء اللہ کو نہیں دیا۔ جب مجلس ختم ہوئی اور سیّد ضیاء تنہا رہ گئے تو حضرت میر نے اپنا دستِ مبارک بڑھا کر ایک بیڑہ سید ضیاء اللہ کے حوالہ کیا۔ سیّد صاحب انتہائی شرمندہ ہوئے۔ حضرت میر صاحب نے بطور زجر فرمایا کہ فقیروں کا امتحان نہیں لیا کرتے۔ کہیں ایسانہ ہو ان کا غصہ حرکت میں آجائے۔ ایک دن وضو فرما رہے تھے اچانک مٹی کا لوٹا جو آپ کے ہاتھ میں تھا دیوار پر دے مارا۔ لوگ اس خلافِ عادت حرکت پر تعجّب کرنے لگے جب کچھ دنوں کے بعد ایک خادم جس کو کسی جگہ بھیجتا تھا۔ واپس آیا تو اس نے بتایا کہ میں ایک جنگل میں جا رہا تھا ایک شیر میرے سامنے آیا اور اس نے چاہا کہ مجھ پر حملہ کرے۔ اس وقت میں نے حضرت پیر دستگیر یعنی میر سیّد طیّب کو یاد کیا۔ اسی دم ہوا سے ایک لوٹا ظاہر اور وہ شیر کے کلّہ پر پڑا۔ شیر نے اپنا منہ پھیر کر جنگل کی راہ لی اورمیں نے اس درطۂِ ہالکت سے نجات حاصل کی۔ جب لوگوں نے دونوں تاریخوں کا حساب لگایا تو یہ دونوں واقعے ایک ہی وقت میں واقع ہوئے تھے۔
حضرت میر ۵/ربیع الاوّل شریف ۱۰۶۶ھ کو انجمنِ قدس سرہٗ میں جلوہ افروز ہوئے (انتقال فرمایا) اتباعِ سنتِ نبویﷺ کا کمال یہ ہے کہ وصال بھی ماہِ ربیع الاول شریف میں ہوا اور یہ سنت بھی جو بے اختیار تھی ان کوحاصل ہو گئی۔ عمر شریف اٹھہتر سال (۷۸) اور چار دن کم گیارہ ماہ ہوئی مزار شریف میر عبد الواحد کے مزار کے قریب ایک الگ احاطہ میں واقع ہے۔ تاریخ وصال ستون دین افتاد (۱۰۶۶ھ) ہے۔ انہی ایّام میں میر محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے جو اس فقیر کے ہم درس بھی تھے۔ اور جن کا ذکر آئیندہ اوراق میں آئے گا اس قدیم تاریخ کو خوب نظم کیا ہے۔ ؎
پنجم شہر انتقال بنی |
رفت طیّب زوہرے بے بنیاد |
(مآثر الکرام)