حضرت میاں علی محمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ
اسمِ گرامی:آپ کا اسمِ گرامی مجمع علم و عرفان حضرت الحاج میاں علی محمد خان اور آپ کے والد کا نام حضر محمد عمر خاں تھا۔(رحمۃ اللہ علیہما)
تاریخ ومقامِ ولادت:آپ علیہ الرحمہ 1299ھ/1881ء میں بلسی عمر خاں ، متصل ہر یانہ ضلع ہوشیار پور(بھارت) میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: حضرت میاں علی محمد خاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نانا کی نگرانی میں افاضل اساتذہ سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی ، علم طب اور فنون سپر گری پر بھی خصوصی توجہ فرمائی ۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا دین محمدمولانا حکیم محمد عبد اللہ جگراونی اور مولانا مرید احمد خاں اپنے دور میں علم و فضل کے آفتاب دماہتاب ہوئے ہیں ۔
بیعت وخلافت: مروجہ علوم سے فارغ ہو کر ا پنے نانا اور مرشد گارمی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلوک و معرفت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے نانا اور مرشد گارمی کی خدمت میں حاضر ہوکر اکتساب کرتے رہے ۔ بیعت آپ نے اپنے نانا جان حضرت خواجہ محمد خاں رحمہ اللہ تعالیٰ سے کی اور خرقہ خلافت بھی اپنے نانا جان سے حاصل کیا۔کے وصال پر حضرت خواجہ میاں علی محمد خاں قدس سرہ مسند شیخ پر فائز ہوء اور سجاد گی کا حق ادا کردیا ۔
سیرت وخصائص: حضرت میاں صاحب اپنے دور میں سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے سب سے معمر بزرگ تھے۔علم و فضل ،جود سخا،زہد و تقویٰ، اتباع شریعت اور اسقامت میں نادر روزگات تھے ۔ خاموشی سے گرانقد دینی خدمات انجام دیتے اور کسی کو خبر تک نہ ہونے دیتے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں بے پناہ حسن ظاہری عطا فرمایا تھا۔حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ بزم رشد و ہدایت کی شمع نورانی تھے۔ ملکی سیاست سے کبھی تعلق نہ رکھا البتہ تحریک پاکستان کے ایام میں مکمل طور پر تحریک کے حامی اور معاون رہے ۔۱۹۴۵ء میں پیر صاحب مانکی شریف ، پاکپتن شریف عرس کے موقع پر مشائخ کرام سے ملے اور تحریک پاکستان کے سلسلے میں مشورے کرتے رہے ۔ اور اکابرین و مشائخ کے قدم قدم سے ملاکر چلے حتٰی کے پاکستان کا قیام ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد حضرت میاں صاحب لاہور تشریف لے آئے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ اپنی قیام گاہ میں دیڑھ دو ماہ قیام کیا ۔ ایک موقع پر فرمایا ہمیں حضرت داتا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہی اپنے پاس ٹھہر ائیں گے ۔پھر حضرت فرید گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایسے حاضر ہوئے کہ آپ کا مزار بھی انہی کے مبارک قدموں میں بنا۔ حضرت میاں صاحب اور ادو وثائف کی بے مثال پابندی کے ساتھ ساتھ کتب تصوف کے پڑھنے میں بڑی دلچسبی رکھتے تھے۔ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی قدس سہر کی تصنیف لطیف "فصوص الحکم" سے تو آپ کو عشق تھا ۔
تاریخِ وصال: 15محرم الحرام 1395ھ/بمطابق 28 جنوری 1975 ء بروز منگل آفتاب شریعت و طریقت وحید العصر ، فرید الدہر حضرت میاں علی محمد خاں چشتی نظامی فخری رحمۃ اللہ علیہ کا لاہور میں وسال ہوا۔ دوسرے دن تین بجے بعد نماز ظہر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر قد س سرہ العزیز کی خانقاہ شریف میں نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں علماء مشائخ کی کثیر تعداد کے علاوہ ہزاروں تمندوں نے شرکت کی۔ ان کی آخری آرام گاہ حضرت خواجہ گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درگاہ شریف میں بنائی گئی۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابرِاہلسنت