حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:آپ کانام اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ نے یہ کہہ کرکہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے"جانِ جاناں" رکھا۔لقب: شمس الدین،حبیب اللہ۔تخلص:مظہرتھا۔ آپ کے والدمرزاجان علیہ الرحمہ سلطان اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے دربار میں منصب قضاء پرفائزتھے۔آپ کاسلسلہ نسب19واسطوں سے حضرت محمد بن حنفیہ کی وساطت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
تاریخِ ولادت:آپ بروزجمعۃ المبارک11رمضان المبارک،1111ھ مطابق فروری 1700ء کومالوہ کے قریب کالاباغ کےمقام پرپیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ کے والد نے بچپن ہی سے انکی تعلیم و تربیت کا بہت اہتمام کیا تھا اور کم عمری میں ہی یہ سلسلہ شروع کردیا تھا۔آپ نے رسائل فارسی اپنے والد سے محاورۃ پڑھے ،قرآن شریف قاری عبد الرسول سے پڑھا اورتجوید و قراءت کی سند بھی انہی سے حاصل کی۔والد مرحوم کی وفات کے بعد حدیث و تفسیر کا علم مولانامحمد افضل سیالکوٹی اور دیگر علماء سے حاصل کیا۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ نورمحمد بدایونی سے بیعت ہوئے اور انہوں نے خلافت بھی عطاء فرمائی۔
سیرت وخصائص: شیخ المشائخ ،عارفِ کامل،حامیِ شریعتِ اسلامیہ حضرت مرزامظہرجانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کانام ان قابل قدر شخصیات میں سےہےجنہوں نےہندوستان میں دین اسلام کی حفاظت کابیڑہ اٹھایا۔آپ بیک وقت قرآن کریم کےمفسر،حدیث کےمحدث،خانقاہ کےعظیم صوفی اورمیدانِ جنگ کےعظیم مجاہدتھے۔آپ نے اپنی تمام خدادا صلاحیتوں کو اسلام کی خدمت اوراشاعت و ترویج کے لئے وقف کردیاتھا۔ آپ فرماتے تھے: کہ شور عشق و محبت اور رغبت اتباع سنت میری طینت کے خمیر میں شامل تھے۔ میں نو سال کا تھا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو خواب میں دیکھا کہ بکمال عنایت پیش آئے۔ ان ہی ایام میں جب کبھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ذکر مبارک آتا تھا تو ان کی صورت مبارک میرے سامنے آجاتی تھی۔ میں نے بارہا ان کو چشم ظاہر سے دیکھا اور اپنے حال پر بہت مہربان پایا۔
طالبانِ خدا نے ہر طرف سے آپ کی طرف رجوع کیا۔ علماءوصلحاءکسب فیوض کے لئے آپ کی خانقاہ میں جمع ہوگئے اور آپ کے کمالات کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ ابتدائے حال میں آپ کی توجہ کی تاثیر سے لوگوں میں بے تابی پیدا ہوجاتی اور کمال استغراق کے سبب بیخود ہوجایا کرتے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے تھے: اللہ تعالٰی نے ہمیں کشف صحیح عطا کیا ہے کہ روئے زمین کے تمام حالات ہم سے پوشیدہ نہیں، اور ہتھیلی کے خطوط کے مانند عیاں ہیں۔ اس وقت میرزا جان جاناں کا مثل کسی اقلیم و شہر میں نہیں ہے۔ جس شخص کو سلوک مقامات کی آرزو ہو وہ ان کی خدمت میں جائے۔ چنانچہ شاہ صاحب کے احباب نے حسب الامرآپ کی خدمت میں استفادہ کے لئے رجوع کیا۔آپ کی توجہ اس پر مصروف تھی کہ سلسلہ مجددیہ تمام عالم میں پھیل جائے اور اس طریقہ مجددیہ کی نسبتوں سے جہان منور ہوجائے۔ چنانچہ ہزارہا آدمی آپ سے بیعت ہوکر دوام ذکر خدا میں مشغول ہوئے اور قریب دو سو نیک نفوس آپ سے اجازت تعلیم ذکر پاکر خلق خدا کی ہدایت میں مشغول ہوئے۔
آپ کمال زہد و توکل سے متصف تھے اور دنیا اور اہل دنیا کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے اور دنیا داروں کے ہدئیے قبول نہ فرماتے۔ ایک دفعہ محمد شاہ مغل بادشاہ نے اپنے وزیر قمرالدین کی زبانی کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ملک عطا فرمایا ہے، جس قدر دل مبارک میں آئے بطور ہدیہ قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: کہ اللہ تعالٰی نے ہفت اقلیم کو قلیل فرمایا ہے، تمہارے پاس اس قلیل کا ساتواں حصہ یعنی ایک اقلیم ہندوستان ہے، اس میں سے کیا قبول کروں۔تعلیم تزکیہ کے ساتھ آپ کو جھاد میں بھی خاصہ شغف تھا ،اسلحہ میں بہت مہارت رکھتے تھے۔خود فرماتے تھے: کہ "اسلحہ کے استعمال میں مجھے ایسی مہارت ہے کہ اگر بیس آدمی تلواروں سے مجھ پر حملہ کریں اور میرے ہاتھ میں صرف لاٹھی ہو تو کوئی میرا بال بیکا نہیں کر سکتا۔(مقامات مظہری ص 12)
وصال: آپ کوشہادت کی بہت تمنا رہتی تھی ۔ اللہ رب العزت نے بڑھاپے میں آپ کی اس خواہش کو پورا کردیا۔ 7محرم الحرام 1195ھ،کو تین رافضیوں نے آپ پرحملہ کیااوردس محرم الحرام 1195ھ،مطابق جنوری 1781ءکی شب آپ نے جامِ شہادت نوش کیا۔آپ کامزار دہلی (انڈیا)میں ہے۔
ماخذومراجع: مقاماتِ مظہری۔تذکرہ علماء ہند۔حدائق الحنفیہ