حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلی علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت ابو محمد ہے۔علوی حسنی ہیں۔ابو عبد اللہ صومعی کے نواسہ ہیں۔ماں کی طرف سے آپ کی والدہ ام الخیرامتہ الجبار فاطمہ بیٹی"ابو عبداللہ صومعی کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ جب میرا فرزند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان میں دن کو کبھی دودھ نہ پیتا تھا۔ایک رمضان کا ہلال ابر کی وجہ سے چھپ گیا۔لوگوں نے آپ کی والدہ سے پوچھا۔انہوں نے کہا" آج عبد القادر نے دودھ نہیں بیا۔آخر معلوم ہوا کہ وہ دن رمضان کا تھا۔آپ کی ولادت ۴۷۱ھ میں ہوئی اور وفات ۵۶۱ھ میں۔آپ فرماتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا۔عرفہ کے دن باہر جنگل کو گیا۔ایک گائے کی دم کھیت کے لیے پکڑی۔اس گائے نے منہ موڑا اور کہا"اے عبدالقادر مالھذا خلقت ولا بھذا امرت یعنی اے عبد القادر تم اس لیے نہیں پیدا کیے گئے اور نہ اس کا حکم ہوا ہے۔میں اس سے ڈرگیا اور واپس آگیا۔پھر میں اپنے آپ کو ٹھے پر چڑھا توحاجیوں کو دیکھا کہ عرفات میں کھڑے ہیں۔یہ بات میں نے اپنی ماں سے کہی اور یہ کہا کہ مجھے خدا کے کام میں لگاؤ اور اجازت دو کہ بغداد میں جاؤں اور علم پڑھنے میں مشغول ہو جاؤں۔بزرگوں کی زیارت کروں۔والدہ نے مجھ سے اس ارادہ کا مطلب پوچھا تو میں نے ان سے بیان کیا۔آخر وہ رو پڑیں اور اٹھیں،اسی دینار (دینار ساڑھے تین ماشہ سونے کا سکہ ہے۔)باہر لائیں اور کہا کہ یہ تیرے باپ کی میراث ہے۔چالیس دینار تو میرے بھائی کے لیے چھوڑے اور چالیس دینار کو میرے بغل کے نیچے جامہ میں سی دیااور مجھ کو سفر کی اجازت دی۔مجھ سے عہد کیا کہ ہر حال میں سچ بولنا۔میرے رخصت کرنے کو دروازہ تک آئیں اور کہا،اے فرزند جاکے خدا کے لیے میں تم قطع تعلق کر تی ہوں اور اب قیامت تک تم کو نہ دیکھوں گی۔(یہ بھی گویا کشف سے معلوم کرلیاکہ اب زندگی میں باہمی ملاقات نہ ہوگی)میں تھوڑے قافلہ کے ساتھ بغداد روانہ ہوا۔جب میں ہمدان سے گزرا تو ساٹھ سوار باہر نکلے اور قافلہ کو انہوں نے پکڑ لیا،لیکن مجھ سے کسی نے تعرف نہ کیا۔اتفاقاً ان میں سے ایک نے مجھے آکر پوچھا کہ او فقیر تمہارے پاس کیا ہے؟میں نے کہا، چالیس دینار ہیں۔اس نے کہا،کہاں ہے؟میں نے کہا،میرے کپڑے میں میری بغل کے نیچے سئے ہوئے ہیں۔اس نے خیال کیا کہ یہ شاید مذاق کہتا ہے۔مجھے چھوڑ دیا اور چلا گیا۔دوسرا آیا اور اس نے مجھے پوچھا،تب بھی میں نے یہی جواب دیا۔اس نے بھی مجھے چھوڑدیا۔وہ اپنے سردار کے پاس گئے۔جو کچھ مجھ سے سنا تھا۔اسسے جا کر کہہ دیا۔اس نے مجھے بلایا اور ٹیلہ پر قافلہ کا مال تقسیم کر رہےتھے۔مجھے لے گئے۔اس نے بھی مجھ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟میں نے کہا، چالیس دینار۔کہا کہ کہاں ہیں؟ میں نے کہا میری بغل کے نیچے جامہ میں سئے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ میرے جامہ کو پھاڑا تو جو کچھ میں نے کہا تھا،ویسے ہی پایا۔پھر اس نے کہا،تمہیں ایسا کیاہوا کہ اس کا اقرار کیا؟میں نے کہا میری والدہ نے مجھ سے عہد لیا تھا کہ سچ بولنا۔اس لیے میں اس عہد میں خیانت نہیں کروں گا۔تب ان کا سردار روپڑا اور کہا کہ میں اتنے برسوں سے اپنے پروردگار کے ساتھ خیانت کرتا رہاہوں۔پھراس نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔اس کے ساتھیوں نے کہا تم اس لوٹ مار میں ہمارے سردار تھےتو اب اس توبہ میں بھی ہمارے سردار بنو۔سب نے میرے ہاتھ پر توبہ کی اور جو کچھ قافلہ والوں سے لیا تھا ۔سب ان کو واپس کردیا۔یہ لوگ سب سے اول میرے ہاتھ پر تائب ہوئے تھے۔۴۸۸ھ میں بغداد میں پہنچا۔آپ بڑی سعی کے ساتھ علم کی تحصیل میں مشغول ہوئے۔اول قرآن کی قرات اور اس کے بعد فقہ حدیث ادب میں ان بزرگوں سے جو اس زمانہ میں علوم میں مشہور اور معین تھے۔تھوڑے سے عرصہ میں اپنے ہمعصروں پر غالب ہوئے اور سب میں ممتاز بن گئے۔۵۲۱ھ میں وعظ کی مجلس شروع کی۔آپ کی کرامات ظاہر اور حالات مقامات عالی تھے۔امام یافعی رحمتہ اللہ کی تاریخ میں ہے۔واما کراماتیعنی الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالی عنہ فخارجۃ عن العصر وقد اخبر نی من ادر کت من اعلام الا ئمۃ ان کرامہ تو اترت اوقربت من التواتر و معلوم بالتفاق انہ لم یظھر ظھور کرامہ لغیرہ من شیوخ الافاق۔یعنی آپ کی کرامت شیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالی عنہ کے شمار سے خارج ہیں اور مجھ کوان لوگوں نے خبر دی،جو کہ مشہور امام ہیں کہ آپ کی کرامات متواتر ہیں یا قریب متواتر ہیں اور بالاتفاق معلوم ہے کہ ان کے ہمزمانہ کے کسی شیخ سے ان جیسی کرامات ظاہر نہیں ہوئیں۔آپ فرماتی ہیں کہ گیارہ سال تک میں ایک برج میں بیٹھا رہا تھااور خدائے تعالی سے عہد کیا کہ جب تک نہ کھلائیں گےاور میرے منہ میں لقمہ نہ دیں گے،نہ کھاؤں گا اور نہ پیوں گا۔جب تک نہ پلائیں گے۔
ایک دفعہ چالیس روز تک میں نے کچھ نہ کھایا۔چالیس دن کے بعد ایک شخص آیااور تھوڑا کھانا لایا اور رکھ کر چلا گیا قریب تھاکہ میرا نفس اس پر گرے۔کیونکہ وہ بہت بھوکا تھا۔میں نے کہا،واللہ جو عہد خدا سے کر چکا ہوں،اس سے ہ پھروں گا۔میں نے سنا میرے اندر سے کوئی شخص فریادکرتا ہےاور باآواز بلند کہتا ہے،الجوع الجوع یعنی بھوک لگی ہے،بھوک لگی ہے۔اتفاقاً شیخ ابو سعد مخدومی رحمتہ اللہ علیہ میرے پاس آئے۔اس آواز کو سنا اور کہا،اے عبدالقادر یہ آواز کیا ہے،میں نے کہا یہ نفس کا حق و اضطراب ہے،مگر روح خدا کے مشاہدہ میں برقرار ہے۔انہوں نے کہا،ہمارے گھر چلو۔وہ چلے گئےاور میں نے جی میں کاہ کہ میں باہر نہ جاؤں گا۔اتفاقاً ابو العباس خضر علیہ السلام آئے اور کہا ،اٹھو اور ابو سعید کے پاس جاؤ۔میں گیا اور دیکھا کہ ابو سعید اپنے گھر کے دروازہ پر کھڑے ہیں۔میرا انتظار کر رہے ہیں۔کہا،اے عبدالقادر کہ جو کچھ کہ میں نے تمہیں کہا تھا۔کیا وہ کافی نہیں تھا کہ خضر کے کہنے کی ضرورت پڑی۔پھر وہ مجھے گھر میں لائے اور جو کھانا تیار کیا تھا۔اس میں سے لقمہ لقمہ کر کے میرے منہ میں دالتے تھے۔یہاں تک کہ میں سیر ہوگیا۔اس کے بعد مجھے خرقہ پہنایا۔میں نے ان کی صحبت کو لازم پکڑاشیخ ابو محمد عبدالقادر بن ابی صالح بن عبد الجیلی نے شیخ ابی سعید مبارک علی مخدومی سے خرقہ پہناانہوں نے شیخ ابوالحسن علی بن محمد بن یوسف قریشی ہکاری سے،انہوں نے ابوالفرج طرسوسی کے ہاتھ سے،انہوں نے شیخ ابوالفضل عبدالواحد بن عبدالعزیز تمیمی سے،انہوں نے ابو بکر شبلی قدس اللہ ارو حہم سے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سفر میں تھا۔ایک شخص ایسے میرے پاس آیا کہ میں نے اس کو بھی نہ دیکھا تھا۔اس نے آکر کہا ،میرے ساتھ رہنا چاہتا ہو؟میں نے کہا، ہاں۔کہا،اس شرط پر کہ میری مخالفت نہ کرنا۔میں نے کہا،اچھا میں مخالفت نہ کروں گا۔کہا،یہاں بیٹھ۔یہاں تک کہ میں آؤں۔ایک سال گزر گیا۔وہ شخص نہ آیا۔میں اتنے عرصہ میں وہیں رہا۔پھر ایک گھڑی میرے پاس آکر بیٹھاپھر اٹھا اور کہا کہ یہاں سے مت جانا جب تک میں نہ آؤں۔ایک سال گزر گیا پھر آیا اور ایک گھڑی بیٹھ کر چلا گیااور کہہ گیا کہ یہاں سے نہ جانا،جب تک میں نہ آؤں۔ایک سال اور گزر گیا۔پھر آیا اور اپنے ساتھ روٹی دودھ لایا اور کہا کہ میں خضر ہوں۔مجھے کہا گیا ہے کہ تمہارے ساتھ کھانا کھاؤں۔وہ کھانا ہم نے مل کر کھایا۔پھر کہا،اٹھو اور بغداد میں جاؤ۔تب ہم مل کر بغداد میں آئے۔
(نفحاتُ الاُنس)