حضرت محمد معین مخدوم نقشبندی ٹھٹھوی علیہ الرحمۃ
ف ۱۱۶۱ھ
مخدوم محمد معین بن محمد امین بن شیخ طالب ٹھٹھہ میں پیدا ہوئے، آپ کے زمانہ میں ٹھٹھہ علوم و فنون کا گہوراہ اور جلیل قدر علماء کا مرکز تھا، آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد سے حاصل کی جو اپنے عہد کے اکابر علماء میں سے تھے، پھر شاہ عنایت سے دینی علوم کی مزید کتب پڑھی، شیخ محی الدین ابن العربی کی مشہور زمانہ کتاب فصوص الحکم آپ نے علم رضا درویش سے پڑھی، حدیث کی تعلیم مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی سے حاصل کی، علاوہ ازیں حضرت شاہ ولی اللہ، شیخ جلال محمد اور علامہ میر سعد اللہ پوربی سے بھی آپ نے استفادہ کیا۔
علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد آپ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے شیخ سیف الدین سرہندی کے خلیفہ مخدوم ابو القاسم نقشبندی سے بیعت کی۔ آخر میں وحدت الوجود کے نظریہ سے متاثر ہوکر صوفی شاہ عنایت اللہ سے متعلق ہوگئے لیکن اپنے مرشد کی ناراضگی کے سبب بعد میں رجوع کر لیا۔
اپنے مرشد مخدوم ابو القاسم کے وصال کے بعد آپ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے وہ شاہ عبداللطیف سے غیر معمولی عقیدت و محبت رکھتے تھے، شاہ صاحب بھی ان کے ساتھ نہایت عزت و تکریم سے پیش رکھتے تھے، شاہ صاحب بھی ان کے ساتھ نہایت عزت و تکریم سے پیش آتے تھے اور اکثر مخدوم معین سے ملاقات کے لیے ٹھٹھہ تشریف لاتے تھے۔ مخدوم محمد اکثر مخدوم معین سے ملاقات کے لیے ٹھٹھہ تشریف لاتے تھے۔ مخدوم محمد معین کی وفات کے وقت بھی شاہ عبداللطیف ٹھٹھہ میں تشریف فرما تھے۔
مخدوم محمد معین کی ذات علوم و فنون کا سرچشمہ تھی، ٹھٹھہ میں آپ نے ایک عظیم درسگاہ قائم کی جس میں آپ طلباء کو علم و فنون کی تعلیم دیتے، ان کے اخراجات بھی آپ کو خود برداشت کرتے تھے۔ یہاں کے تربیت یافتہ علماء نے ملک کے گوشے گوشے میں علم و عمل کے شمعیں فروزاں کیں۔ آپ نہایت ہر دل عزیز تھے، امیر و غریب سبھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، ٹھٹھہ کے گورنر نواب مہابت خا ن اور نواب سیف اللہ خان آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔
آپ نے تصانیف کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا، ان کتب سے آپ کے غیر معمولی تبحر، علم و فضل اور کمال کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کی مندرجہ ذیل تصانیف ہیں۔
۱: رسالہ اویسیہ
یہ رسالہ فارسی میں ہے جو مخدوم محمد معین نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ایک سوال پر جو آپ نے ان سے اویسی سلسلہ کی تحقیق کے بارے میں کیا تھا، لکھا ہے۔
۲: شرح رموز عقائد رموز صوفیہ۔
یہ رسالہ آپ نے نواب مہابت کان کی استدعا پر لکھا، جس پر آپ کے شاگرد رشید شریف الدین علی کا مقدمہ ہے۔
۳: اثبات رفع الدین فی الصلوٰۃ کے سلسلہ میں آپ نے دو رسالے مرتب فرمائے تھے۔ ایک عربی میں اور دوسرا فارسی میں۔
۴: ایقاظ الوسنان۔
۵: غایتہ الفسخ لمسئلتہ النسخ۔
۶: رسالہ فی تحقیق اھل البیت۔
۷: غایۃ الا یضاح فی المحاکمتہ بین النووی وابن الصلاح۔
۸: ابراز الضمیر للمنصف الخبیر۔
۹: انوار الواجد من منع المجد۔
۱۰: رسالہ دربحث تناسخ۔
۱۱: رسالہ فی انتقاد المو ضعین من ‘‘فتح القدیر’’۔
۱۲: رسالہ فی تحقیق معنی الحدیث ۔ (لانورث ماتر کنا صدقۃ)۔
۱۳: مواھب سید البشرفی الحدیث الائمتہ الاثنی عشر۔
۱۴: قرۃ العین فی البکاء علی الامام الحسین۔
۱۵: رسالہ فی بحث حدیث المصراۃ۔
۱۶: الحجتہ الجلیہ فی نقض الحکم بالافضلیفتہ۔
۱۷: رسالہ بالا جوبۃ الفاضلۃ الامثلہ العشرہ الکاملۃ۔
۱۸: رسالہ فی اثبات اسلام ابی طالب
۱۹: دراسات اللبیب فی الاسوۃ الحسنۃ بالحبیب۔ (یہ آپ کی سب سے آخری تصنیف ہے۔)
۱۱۶۱ھ میں عین محفل سماع میں آپ کا وصال ہوا، ٹھٹھہ کے مشہور قبرستان مکلی میں آپ پیرو مرشد کی پائنتی مدفون ہوئے، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی آپ کی تجہیز و تکفین میں شریک ہوئے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )