حضرت فاضل جلیل مولانا حافظ عبدالغفور راولپنڈی علیہ الرحمۃ
حضرت مولانا علامہ حافظ عبدالغفور بن حافظ فضلِ حق بمقام گڑھی کیمبلپور، ۱۳۴۵ھ/ ۱۹۲۶ء میں اعوان خاندان کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔
آپ نے حفظِ قرآن کے بعد مروجہ علوم و فنون کی تعلیم جامعہ غوثیہ گولڑہ شریف، جامعہ اسلامیہ سلطان پور، جامعہ حنفیہ بھنگی المعروف بنگیٔ حضرو، بھوئی گاڑ اور جامعہ رضویہ مظہرِاسلام فیصل آباد میں حضرت مولانا ضیاء الدین، حضرت مولانا فریدالدین، حضرت مولانا محب النبی، حضرت مولانا محمود شاہ رحمہم اللہ اور مولانا عبدالحق (حضرو) سے حاصل کرکے ۱۳۷۰ھ/ ۱۹۵۱ء میں جامعہ غوثیہ سے سندِ فراغ حاصل کی۔
علومِ عربیہ کی تکمیل کے بعد جامعہ رضویہ مظہراسلام جامع مسجد جامن والی بھابڑا بازار راولپنڈی میں تدریس اور خطابت شروع کی جو آج تک اسی مقام پر جاری ہے۔
تحریک ختم نبوت میں حضرت پیر طریقت خواجہ غلام محی الدین المعروف بابوجی (۱۳۹۴ھ/ ۱۹۷۴ء ۲۲؍جون) رحمہ اللہ نے تین سو تیرہ افراد پر مشتمل ایک قافلہ مختلف شہروں میں ختمِ نبوت کے حق میں مظاہروں کے لیے مرتب فرمایا۔ اس کے سالار آپ (مولانا عبدالغفور صاحب) اور محمد شفیع صاحب (حضرو) مقرر فرمائے گئے۔ اس قافلے نے کیمبلپور کے چیدہ چیدہ شہروں میں شاندار مظاہرے کیے۔
علاوہ ازیں آپ جمعیت علماء پاکستان کے منشور کے مطابق مملکتِ خداداد پاکستان میں نظامِ مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نفاذ اور مقامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے لیے کارہائے نمایاں سر انجام دے رہے ہیں۔
زمانۂ طالب علمی میں آپ نے خواجہ پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ (۲۹ صفر ۱۳۵۶ھ/ ۱۱؍مئی ۱۹۳۷ء) کے دستِ حق پرست پر سلسلۂ چشتیہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔
آپ کے مشہور تلامذہ میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱۔ مولانا محمد عبداللہ، مردان
۲۔ مولانا محمد عالم، مدرس جامعہ غوثیہ مظہرِ اسلام، راولپنڈی
۳۔ مولانا حافظ غلام فرید، اسلام آباد
۴۔ مولانا محمد سلیمان مہتمم دارالعلوم انوارِ رضا، راولپنڈی
آپ کے مندرجہ ذیل پانچ صاحبزادے ہیں:
۱۔ صاحبزادہ محمد افضل، ۲۔ صاحبزادہ محمد زبیر، ۳۔صاحبزادہ محمد عبداللہ، ۴۔صاحبزادہ محمد اجمل، ۵۔صاحبزادہ محمد اظہر۔ [۱]
[۱۔ یہ حالات حضرت مولانا حافظ عبدالغفور صاحب مدظلہ نے بنامِ مرتب ایک مکتوب میں تحریر فرمائے۔]
علامہ مولانا حافظ عبدالغنی اویسی، سلہڈ (ایبٹ آباد)
یادگارِ سلف حضرت علامہ مولانا حافظ عبدالغنی اویسی بن مولانا بدرالدین ۱۸۹۷ء/ ۱۳۱۵ھ میں مقام نواں شہر مضافات ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے۔[۱]
[۱۔آج کل آپ موضع سلہڈ (ایبٹ آباد) میں مقیم ہیں۔]
آپ کا تعلق راجپوت جنجوعہ قوم سے ہے۔ آپ کے والد ماجد مولانا بدرالدین ممتاز عالمِ دین تھے جنہیں حضرت پیر نظام الدین (کیہاں شریف) سے بیعت و خلافت حاصل تھی۔ حصولِ علم اور تلاشِ مرشد کے شوق میں اپنے وطن مالوف راولپنڈی سے ہجرت کی اور نواں شہر ضلع ایبٹ آباد آکر مقیم ہوگئے اور یہیں آپ کا مزار ہے۔
حضرت علامہ عبدالغنی اویسی نے صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔ علومِ اسلامیہ کی کتب متداولہ پڑھنے کی خاطر سفر بھی کیا، لیکن زیادہ تر تعلیم اپنے والد ماجد (مولانا بدرالدین رحمہ اللہ) سے حاصل کی۔ آپ کے والد ماجد نے نہ صرف ظاہری علوم سے نوازا، بلکہ ان کے فیضانِ نظر کا آپ کے باطن پر بھی گہرا اثر ہوا، اس لیے آپ ظاہری و باطنی علوم کے یکساں طور پر امین قرار دیے جاسکتے ہیں۔
آپ نے اپنی تمام زندگی دین و ملت کی خدمت کے لیے وقف فرمائی۔ قرآن و حدیث اور علومِ عربیہ کا عرصہ تک درس دیتے رہے اور سینکڑوں تشنگانِ علوم کو سیراب کیا[۱]۔ تبلیغ دین کے سلسلے میں جامع مسجد ایبٹ آباد میں خطبۂ جمعہ ارشاد فرماتے رہے، لیکن مولوی محمد اسحاق سے اختلافِ عقائد کی بنا پر جامع مسجد سے کچہری کی جامع مسجد میں منتقل ہوگئے۔ ابتداء میں نمازیوں کی تعداد میں خاطر خواہ کثرت نہ تھی، لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ نماز جمعہ کے بعد آپ نے ذکر بالجہر اور صلوٰۃ و سلام کا سلسلہ شروع فرمایا جس سے فضا میں خاصی کشادگی پائی جاتی ہے۔ تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں آپ نے ’’پیشکش حبیب‘‘ تحریر فرمائی۔
[۱۔ اہل سنّت کے مایہ ناز خطیب و مبلغ مولانا عبدالمالک لقمانوی خطیب کھلا بٹ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ (مکتوب مولانا عبدالمالک بنامِ مرتب)]
قیامِ پاکستان سے قبل جب تحریکِ پاکستان چلی تو آپ نے کانگرس کی رکنیت سے علیحدگی اختیار کرکے مسلم لیگ کا کھل کر ساتھ دیا اور تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔حتی کہ ۱۹۴۰ء میں لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں آپ نے مسلم لیگ ہزارہ کے صدر کی حیثیت سے صوبہ سرحد کی طرف سے نمائندگی کی۔ اب بھی آپ کا تعلق مسلم لیگ سے ہے، لیکن عملاً سیاست سے کنارہ کش ہیں۔
آپ نے سلسلۂ نقشبندیہ میں جناب حافظ عبدالکریم صاحب (م۲صفر ۱۳۵۵/ ۲۰؍مئی بدھ ۱۹۳۶ء) عیدگاہ راولپنڈی کے دستِ حق پرست پر شرف بیعت و خلافت حاصل کیا۔ آپ کے مریدین و معتقدین کا حلقہ کافی وسیع ہے جن میں سے ہزاروں لوگ آزاد جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔
۵۸۔ ۱۹۵۷ء میں آپ کو حج بیت اللہ شریف اور روضۂ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔
آپ کے نو صاحبزادے اور صاحبزادیاں ہیں۔ سب سے بڑے صاحبزادے نواں شہر کے محلہ موسیٰ زئی میں فرائضِ خطابت سر انجام دے رہے ہیں، جبکہ دوسرے صاحبزادے محمد ضیاء بنوں میں سیشن جج کے عہدہ پر فائز ہیں۔ حافظ مقصود الرحمان اویسی ایم اے (الیکشن کمیشن (مانسہرہ) میں آفیسر ہیں۔ معطوف السبحان صاحب انجینئر ہیں۔ مودود المنان صاحب ایران میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ باقی مختلف کاموں میں اور دو زیرِ تعلیم ہیں۔
[۱۔ مکتوب حافظ مقصود الرحمٰن صاحب، ابن مولانا حافظ عبدالغنی اویسی، بنامِ مرتب]