حضرت مولانا عبدالحق محدث پیلی بھیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ پیلی بھیت کی’’ پنجابی سودا گراں‘‘ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔’’مدرسۃ الحدیث‘‘ پیلی بھیت سے درس نظامی کی تکمیل کی۔آپ شیخ المحدثین حضرت محدث سورتی کے بانی مدرسۃ الحدیث کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔تعلیم سے فراغت پاکر بریلی شریف پہنچے۔ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت سے بیعت کی سعادت حاصل کی، اور 1333ھ کو شرف ِ خلافت سے نوازےگئے۔ آپ نے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی خوب تبلیغ فرمائی۔ ’’مدرسۃ الحدیث‘‘ اور ’’مدرسہ رحمانیہ‘‘ پیلی بھیت میں فقہ پڑھاتے رہے۔اس طرح آپ کی تمام زندگی درس و تدریس میں بسر ہوئی۔ آپ کے شاگردوں کا سلسلہ بہت وسیع ہے۔
حضرت مولانا عبد الحق محدث پیلی بھیتی کو اعلیٰ حضرت امام اہل سنت ’’محدث پیلی بھیتی‘‘ کے لقب سے یاد فرماتے، اور اکثر ارشاد فرماتے کہ مولانا عبد الحق کو دیکھ کر سلف صالحین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی ابن مولانا عبد الاحد پیلی بھیتی نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ مولانا عبد الحق کا شمار محدث سورتی نہایت عزیز و لائق تلامذہ میں ہوتا ہے۔ آپ عادات و اطوار میں بھی اپنے استاذ محترم سے مشابہ تھے، اور حضرت محدث سورتی کے وصال کے بعد پیلی بھیت شہر میں آپ کو اپنے علمی تبحر کی بناء پر مرکزیت حاصل ہوگئی تھی۔پیلی بھیت کے نامور بزرگ شاہ لطف اللہ میاں سے آپ کو خصوصی انس تھا۔یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر آپ ان کے مقبرے کے اندر اوراد و وظائف میں مشغول ہوتے، اسی جگہ آپ نے شرح ملا علی قاری کے کئی نسخوں میں سے ایک مستند نسخہ مرتب فرمایا تھا جس کے بعض مقامات پر حضرت محدث سورتی نے حواشی قلم بندفرمائے ہیں، یہ قلمی نسخہ مولانا وقار الدین پیلی بھیتی کے ذاتی کتب خانہ میں موجود ہے۔
آپ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے شیدائی تھے۔اعلیٰ حضرت جب بھی پیلی بھیت تشریف لاتے تو آپ ایک لمحہ بھی ان سے جدا نہ ہوتے، آپ علم و عمل ، سیرت و صورت، اور وضع داری میں نمونہ ٔاسلاف تھے۔ آپ کی ساری زندگی درس و تدریس وعظ و نصیحت میں گزری، وعظ و نصیحت بڑے شیریں اور موثر انداز میں فرماتے۔ کسب حلال اور خدمت علم کا مشغلہ آخر دتک قائم رہا۔ ہفتہ میں ایک بار لازمی طور پر اپنے استاد حضرت محدث سورتی کے مزار پر حاضر فاتحہ خوانی کےلئے حاضر ہوتے تھے۔ سال میں متعدد مرتبہ بریلی شریف حاضری دیتے۔اعلیٰ حضرت کے وصال کےبعد یہ سلسلہ جاری رہا۔سر پر عمامہ شریف، نیچا کرتہ، صدری، شرعی پائجامہ، ہاتھ میں چھڑی، اور لدھیانہ کی لال جوتی آپ کا خاص لباس تھا۔تقریبا 75؍ برس کی عمر میں 1361ھ بروز جمعۃ المبارک وفات پائی۔ (خلفاء امام احمد رضا ، ص180۔ از علامہ قصوری)
مولانا عبد العزیز خاں بجنوری
آپ کی پیدائش قصبہ گھنگورہ (جھالو) ضلع بجنور میں ہوئی۔ والد ماجد کا اسم گرامی مولانا ظفر یاب خاں تھا۔آپ اپنے والد ماجد کے خلف اکبر تھے۔ فارسی کی تعلیم گھر میں حاصل کی۔درس نظامی کی تکمیل مولانا احمد حسن امروہی سے اور صحاح ستہ کادورہ بھی آپ ہی سے پڑھا۔مولانا شاہ وصی احمد محدث سورتی کی زیر نگرانی مدرسہ حافظیہ پیلی بھیت میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1340ھ میں مدرسہ منظر اسلام بریلی میں مدرس مقرر ہوئے۔ 1350ھ میں درسِ حدیث آپ کے سپرد ہوا۔ بریلی کی جامع مسجد کی امامت بھی آپ کے ذمہ تھی۔ تمام علوم عقلیہ و نقلیہ میں کامل دست گاہ رکھتے تھے۔ فن حدیث شریف میں آپ امتیازی حیثیت کے حامل تھے۔بعد از عصر مثنوی مولانا رومی کادرس بھی دیا کرتے تھے۔حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں نے آپ کو ’’بدر الطریقۃ‘‘ کا خطاب فرمایا۔
بیعت و خلافت:
اعلی حضرت شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خاں کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے، اور پھر خلافت سے بھی مشرف ہوئے۔ الحاج مولانا رجب علی بانی جامعہ عزیز العلوم نان پارہ آپ کے خلفاء میں سے ہیں۔
تاریخ وصال:
8؍ جمادی الاولیٰ یا 10؍ جمادی الاولیٰ 1369ھ کو اس دار فانی سے کوچ فرمایا؛ اور انجمن اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔ آپ کے شاگرد مولانا مفتی محمد ابراہیم فیضی فریدی شیخ الحدیث مدرسہ شمس العلوم بدایوں نے قطعہ تاریخ وفات کہا۔ (خلفاء امام احمد رضا ، ص182۔ از علامہ قصوری)
اہل عرفاں مولوی عبد العزیز جن سے تھا سر سبز علم دیں کا باغ
ہوگئے رخصت سوگئے گلزار ِخلد دے کے وہ اپنے غم فرقت کاداغ
لکھو ابراہیم ان کا سال ِ فوت رنج و غم سے گو پریشاں ہے دماغ
اٹھ گیا ہے اک محدث یوں کہو آج بزم دیں ہوئی ہے بےچراغ
1369ھ