حضرت مولانا عبدالرحمٰن ضیائی پتافی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نامور عالم دین ، استاد الشعر اء ، حضرت مولانا عبدالرحمن ’’ضیائی‘‘بن حضرت علامہ بہاء الدین ’’بھائی‘‘پتافی کی ولادت صفرالمظفر ۱۴۱۸ھ میں تحصیل میر پو ر ماتھیلو (ضلع گھوٹکی سندھ)میں ہوئی ۔
تعلیم و تربیت:
پرورش و تربیت اپنے والدماجد کی سر پرستی میں ہوئی۔ ناظرہ قرآن مجید اپنی والد ہ ماجدہ پڑھا جو کہ انتہائی متقی و پرہیز گار تھیں ۔ فارسی میں کریما رحیما ، گلستان ، بوستان اور سکندر نامہ وغیرہ کتابیں والد محترم سے پڑھیں ۔ عربی کی تعلیم حضرت علامہ مفتی محمد قاسم ؒ گڑھی یاسین کے پاس حاصل کی۔ دوران تعلیم ان کا انتقال ہو گیا اس لئے مولانا عبدالکریم کورائی (کور سلیمان تحصیل قمبر ضلع لاڑکانہ )کے پاس آگئے اور یہیں پڑھتے رہے اس کے بعد ماد ر علمی کی کشش آپ کو واپس لے آئی اور مدرسہ ہاشمیہ گڑھی یاسین (ضلع شکار پور ) میں مولانا مفتی محمد ابراہیم کے پاس بقیہ کتب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے ۔
درس و تدریس :
بعد فراغت مختلف مدارس میں درس دیا ۔ ہمایون شریف میں حضرت مفتی عبدالباقی ہمایونیؒ کے صاحبزادوں کو درس دیا ۔ ہمایون شریف میں حضرت مفتی عبدالباقی ہمایونیؒ کے صاحبزادوں کو درس دیا۔ اس کے بعد اپنے والد محترم کی قائم کردہ درسگاہ میں آخر عمر تک درس و تدریس کی مجلس کو قائم رکھا۔
بیعت:
شیخ طریقت حضرت خواجہ محمد عمر جان نقشبندی ؒ خانقاہ چشمہ شریف (کوئٹہ ) کے دست اقدس پر بیعت ہوئے ۔
شادی و اولاد :
دوران تعلیم شادی کی۔ اس سے تین بیٹے تولد ہوئے صاحبزادہ اکبر حافظ محمد یوسف صاحب ہیں اور حافظ رحیم بخش ’’غوثی ‘‘پتافی آپ کے بھتیجے ہیں ۔
تصنیف و تالیف :
محترم ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ صاحب رقمطراز ہیں :۔ مولانا عبدالرحمن صاحب فارسی اور سندھی کے شاعر ہیں ۔ اس وقت اپنے گوٹھ میں درس و تدریس میں فارسی اور سندھی میں کئی کتابیں آپ کی یاد گار ہیں ۔
٭ روائح العروض شرح بدر العروض (فارسی) مطبوعہ بہاولپور
٭ القول الکافی فی شرح تذکرۃ القوافی (فارسی ) علم قافیہ کے متعلق غیر مطبوعہ
٭ مجموعہ الغزلیات (فارسی ، سندھی )غزلیات پر مشتمل ہے۔اس کتاب سے غزل الوحید اور روزنامہ مہران اخبار اور دیگر اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے تھے۔(شریعت سوانح نمبر۱۹۸۱ئ)
٭ دیوان ضیائی فارسی قلمی
٭ دیوان ضیائی سندھی قلمی
ٔ٭ ماشھیدان شرح ما مقیمان فارسی
٭ کاشف الغموض عن علم العروض
سفر حرمین شریفین:
حج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی اور واپسی پر اکثر طبیعت نا ساز رہا کرتی تھی ۔ اور ہجر رسول پاک میں اکثر گریہ فرماتے تھے۔
سیلاب:
سن ۱۹۷۶ء میں دریائی اور بارانی سیلاب سے علاقے بہت متاثر ہوئے تھے۔ اس موقعہ پر بتواضع فرماتے:’’زمین و آسمان کی آفات و بلیات و مصائب سب میرے گناہوں کے سبب ہیں ‘‘یہ فرما کر بہت گریہ فرمایا کہ داڑھی آنسوں سے تر ہوگئی اور صلوۃ تنجینا شریف اکثر ورد میں رکھتے تھے اور اس کے ورد کی ہمیں بھی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
وصال:
سندھ کے نامور عالم ، بے مثال نقاش فطرت ، ثانی سعدی ، سادہ طبع ، استاد الشعراء علامہ عبدالرحمن ضیائی کو بسب علالت پنو عاقل ہسپتال میں لایا گیا انتقال سے تین دن قبل ہسپتال میں کاغذ نہ ملنے کی صورت میں ایک اخبار کے ٹکرے پر فارسی میں اپنی تاریخ وصال لکھی (جو آگے درج کی جارہی ہے) ایک روز فرمایا کہ یہاں رہنے سے کچھ فائدہ نہیں ، مجھے اپنے گوٹھ لے چلیں ۔ پنو عاقل سے میر پور ماتھیلو آئے وہاں کچھ قیام کیا۔ وہاں مولانا نے پانی طلب فرمایا لیکن نہ تھا ایک گھڑا تھا وہ بھی خالی تھا ، انکار پر فرمایا :۔
’’جاوٗ گھڑا (مٹی کا مٹکا ) دیکھو ، وہاں جا کر دیکھا تو سبحان اللہ !گھڑا سیدھا ہے اور ایک گلاس کی مقدا ر پانی موجود ہے وہ پانی پینے کے لئے پیش کیا گیا اور گھڑا اوندھا کر دیا گیا اور تقریبا ایک گھنٹہ کے بعد دوبارہ پانی طلب کیا تو وہ ہی صورتحال ۔ اس طرح آپ کی یہ کرامت بستر مرگ پر دوبار ظہور پذیر ہوئی ۔
۲۸، صفر المظفر ۱۳۹۷ھ؍ ۱۷، فرور ی ۱۹۷۷ء بروز جمعرات صبح ۵ بجے علامہ عبدالرحمن ضیائی نے کلمہ شہادت پڑھا اور روح مبارک پرواز کر گئی ۔ اس وقت میت کو گوٹھ ‘‘ مولوی بہاء الدین ’’پہنچایا گیا۔ جہاں نماز جنازہ ہوئی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی نماز جنازہ استاد الحفاظ حضرت حافظ عبدالستار قادری صاحب مہتمم مدرسہ گوٹھ جھنگاں ڈھر کی کی امامت میں اد اکی گئی ۔ بعد نماز جنازہ آپ کو حضرت مولانا بہاوٗ الدین بھائی کے روضہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
(مضمون نگار حافظ رحیم بخش غوثی ، الراشدر جب شعبان ۱۳۹۷ھ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)