حضرت مولانا عبدالشکور نظامی کمبل پوش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
درویش بزرگ حضرت صوفی عبدالشکور اکبر آبادی بن آگرہ (یوپی ۔ بھارت ) میں ۲۷، رجب المرجب ۱۳۱۱ھ ؍ ۱۸۹۴ء دو شنبہ کو صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
ان کے حقیقی نانا حضرت مولانا الحاج سید محبوب علی عطاء ، قادری سلسلے سے وابستہ تھے۔ مولانا عبدالشکور نے انہی کے دامن فیض میں تربیت پائی اور اس زمانے کے رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم انہی سے حاصل کی۔
(بروایت پروفیسر مرزا سلیم بیگ بحوالہ ماہنامہ نعت لاہور ’’سندھ کے نعت گو ‘‘ دسمبر ۲۰۰۰ئ)
حضرت قبلہ سید نواب محمد خادم حسن صاحب زبیری اجمیری مرحوم کی صحبت نے آپ کو ایک اچھا خاصہ شاعر بنا دیا ۔ آپ نے استاد محترم کے متعلق قطعہ کہا ہے:
خادم خادمان چشت گئے
نیک سیرت تھے خود سرشت گئے
آج خادم حسن زبیری بھی
کیا کہوں خازن بہشت گئے
بیعت :
آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں حضرت محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیاء دہلوی ؒ کے سجادہ نشین سالک نما مجذوب معارف دستگار حضرت مولانا سید احمد علی جمال شاہ نظامی کمبل کمبل پوش ؒ کے دست بیعت ہوئے ۔
حسن جمال مصطفی شاہ جمال احمد علی
شان جلال مرتضی شاہ جمال احمد علی
شاعری )تقسیم ہند پر والدہ اور بچوں سمیت ۲۷، رجب المرجب ۱۳۶۶ھ بطابق۱۹۴۷ء کو حیدر آباد (سندھ ) آگئے ۔ وہ خوش بیان واعظ کے علاوہ شیخ طریقت بھی تھے۔ مولانا عبدالشکور ایک صوفی شاعر تھے ۔ ان کی شاعر ی میں اخلاقیات حمد و نعت اور منقبت کے مضامین نظم غزل اور قطعات کی صورت میں نمایاں ہیں ۔ حسان الہند مولانا ضیاء القادری بدایونی (کراچی ) سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ حضور اکرم نور مجسم ﷺ سے انہیں جو والہانہ محبت تھی اس کا اظہار جابجا ان کے تعتیہ اشعار میں ملتا ہے۔ (ایضا)
تاجداروں سے سوا ہے وہ فقیر بے نوا
زیب سر جس کے رہے نعل کف پائے رسول
ان کی سرمستی کا عالم حشر کے دن دیکھنا
مے کشوں کے ہاتھ میں ہے جام صہبائے رسول
دل ہے وہ د جو خدا کی یاد سے غافل نہ ہو
سر وہی سر ہے کہ جس سر میں ہو سودائے رسول
حکم خلاق دو عالم تھا شب معراج میں
ہاں یونہی نعلین پہنے عرش پر آئے رسول
حق تعالیٰ نے کیا وعدہ ہے یہ معراج میں
میں اسی کو بخش دوں گا، جس کا فرمائے رسول
سجدہ گاہ عاشقاں ہے سجدہ گاہ عارفاں
کیا کشش تجھ میں ہے اے نقش کف پائے رسول
کفر غارت ہو گیا، عالم منور ہو گیا
عالم امکان میں جب تشریف لے آئے رسول
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
چاند بھی شرما گیا، جب آگیا بطحی کا چاند
حق تو یہ ہے نور دکھلا کیا بطحی کا چاند
بدلیاں رحمت کی اٹھیں، بارشیں ہونے لگیں
دونوں عالم کی دولت مجھے، صد شکر ہے
کملی والا میرے دل میں آگیا بطحی کا چاند
ذکر الا اللہ کرتے کرتے جب سویا’’شکور‘‘
روئے روشن خواب میں دکھلا گیا بطحی کا چاند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز عشق یوں ہوتی ہے زاہد
کہ ان کا نقش پا میری جبیں ہے
نہیں بھاتا ہے جنت کا گلستان
تصور میں مدینہ کی زمین ہے
جسے الفت میسر ہو نہ ان کی
وہ مومن کیا مسلماں بھی نہیں ہے
شب معراج میں چون و چرا کی کس کو گنجائش
ہے سبحان الذی اسریٰ سے اظہار شب اسرار
تصنیف و تالیف :
آپ کی درج ذیل تصنیفات یاد گار ہیں :
۱۔ عثمانیہ مئے خانہ الموسوم دیوان شکور
یہ منقبت کا دیوان ہے۔ حضرت نواب خادم حسن زبیری کی زیر نگرانی میں عثمانی معینی کمیٹی آگرہ کی جانب سے ماہ اپریل ۱۹۴۳ء کو غالب پریس کھاری کنواں اجمیر شریف سے شائع ہوا ۔ دوسرا ایڈیشن آپ کو صاحبزادوں نے حیدر آباد سندھ ۱۳۷۹ھ؍ کو شائع کیا۔
۲۔ دیوان ذوق تصوف (۱۳۸۲ھ) نعت و منقبت پر مشتمل کلام ہے ۔ اپنے دور کے نامور شعراء کرام نے قطعہ تاریخ اشاعت کہے ہیں جو کہ کتاب کے آخرمیں شامل اشاعت کئے گئے ہیں ان میں اکثر شعراء اس وقت اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں ۔ مولانا سید محمد علی ارم (حیدرآباد، سندھ ) علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی ، علامہ سید عبدالسلام باندوی ، استاد الشعراء مولانا ضیاء القادری، سید خورشید علی مہر نقوی کراچی ، سید صادق علی صادق حیدرآباد مولانا میر نذر علی درد کا کوری عزیز آباد کراچی ، مولانا ظہور الحسن خان ماہر ضیائی کراچی ، رئیس احمد رئیس ضیائی بدایونی سابق خطیب لال مسجد ملیر کراچی، سید مختار علی مختار ضیائی اجمیری کراچی ، ہاشم رضا خان ہاشم ضیائی بدایونی ، حضرت صابر براری ضیائی کراچی ، محمد حمید خان مائل پیلی بھیتی حال لاڑکانہ ، حکیم سید اکرام حسین سیکری حیدرآباد سندھ ، آرزو تبریزی اکبر آبادی سعود آباد ملیر کراچی وغیرہ ۔
یہ دیوان آپ کے خلیفہ صوفی محمد یعقوب نظامی کورنگی کراچی کی کوشش سے ۱۳۹۵ھ ؍۱۹۷۵ء کے بعد شائع ہوا۔
فاضل شمسی فرماتے ہیں :
زیور طبع سے آراستہ ہو کر آیا
نغمہ صوفی صافی سخن شیخ و شباب
صوفی عبدالشکور آگئے کر وہ کلام
زاہدوں کے لئے اذکار ہے رندوں کی شراب
حافظ و جامی و خسرو نے جمائی محفل
مطرب رومی نے نے لی تو عراقی نے روباب
مختصر یہ ہے میرے سامنے صوفی کا کلام
ساغر حمد میں ہے نعت محمد کی شراب
اہل مشرق کے لئے ذوق تصوف تاریخ
اہل مغرب کو پسند آگیا ذکر مضراب
۱۳۸۲ھ ۱۳۸۲ھ
شعر گوئی سے تعلق نہیں مجھ کو ھاشم
چند اشعار لکھے وہ بھی عجلت بشتاب
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں میں سے منشی سخی نیازی اکبر آبادی ( کراچی ) مشہور ہیں ۔
شادی و اولاد :
آپ کے دو صاحبزادوں کے نام یہ ہیں :
۱۔ سلطان محمد نظامی حیدر آباد
۲۔ غوث محمد نظامی گرو نگر حیدرآباد سندھ
وصال:
حضرت مولانا عبدالشکور ۱۳۹۵ھ ؍۲۶، اپریل ۱۹۷۵ء ۸۵ سال کی عمر میں حیدر آباد (سندھ) میں انتقال کیا۔ بروز جمعہ ۶، جون ۱۹۷۵ء کو آپ کا چہلم ہوا جس میں سید مختار علی اجمیری نے منقبت و قطعہ تاریخ پڑھا۔
حضرت صابر براری (کراچی ) نے قطعہ تاریخ وصال کہا:
آہ! رخصت ہو گئے ہیں عالم فانی سے آج
حضرت پیر طریقت بندہ رب غفور
زاہد کامل بھی تھے، وہ سالک و درویش بھی
بابا کمبل پوش کہلاتے تھے وہ نزدیک و دور
جو بھی ملتا آپ سے ہو جاتا شیدا آپ کا
جلوہ افشاں آپ کے چہرے پہ تھا کچھ ایسا نور
مرعہ تاریخ رحلت کہہ دواے صابر یہی
ہیں بتوفیق الہی خلد میں بابا شکور
۱۹۷۵ء
(تاریخ رفتگان جلد سوم )
[اکثر مواد حضرت کمبل پوش کے ’’دیوان ذوق تصوف ‘‘ سے لیا گیا ہے جو کہ آپ کے چہلم کے بعد کراچی سے شائع ہوا تھا اور یہ نسخہ نعتیہ محقق و اسکالر جناب شہزاد احمد نے برائے مطالعہ مہیا کیا]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)