حضرت مولانا عبداللہ بہاری ٹونکی علیہ الرحمۃ
آپ کے بزرگ عظیم آباد وصوبہ بہار کے تھے، وہاں سے ریاست ٹونک میں گور کھپوریوں کے محلہ میں آکر آباد ہوئے، یہیں آپ پیدا ہوئے، محمد عبداللہ نام رکھا گیا، والد کا نام شیخ صابر علی تھا، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد لطف اللہ علی گڑھی سے درس ۔۔۔۔
حضرت مولانا عبداللہ بہاری ٹونکی علیہ الرحمۃ
آپ کے بزرگ عظیم آباد وصوبہ بہار کے تھے، وہاں سے ریاست ٹونک میں گور کھپوریوں کے محلہ میں آکر آباد ہوئے، یہیں آپ پیدا ہوئے، محمد عبداللہ نام رکھا گیا، والد کا نام شیخ صابر علی تھا، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد لطف اللہ علی گڑھی سے درسیات پڑھی، مولوی احمد علی سہارن پوری سے حدیث کا دور کیا، مولانا فیض الحسن سہارنپوری سے ادبیات عربی حاصل کیا، محلہ مدرسہ عبد الرب دھلی سے تدریس کی ابتداء کی، بعہدٗ اور نٹیل کالج لاہور میں عربی کے پروفیسر ہوگئے، یہاں انجمن مستشار العلماء قائم کی، جو دارالافتاء کی حیثیت رکھتی تھی، ایک زمانہ تیک وہاں مقیم رہے، اس کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ کے صدر مدرس ہوئے، آپ اپنے استاذ مولانافیض الحسن کی طرح عربی کے عمدہ ناظم و ناثر تھے،عربی درس گاہوں کی قدیم تعلیم کا بہترین نمونہ تھے، ہندوستان کے مشاہیر علماء میں آپ کا شمار ہوتا تھا، آپ کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتابوں کے نام مرتب اوراق کو معلوم ہوسکے ہیں،(۱)عجالۃ الراکب فی امتناع کذب الواجب یہ رسالہ آپ نے ۱۳۰۸ھ ۱۵؍جمادی الاولیٰ میں مولوی محمود حسن صدر المدرسین دیوبند کے رسالہ جھد المقل کےجواب میں تحریر فرمایا، مولوی محمود حسن نےاپنی کتاب حضرت مولانا شاہ احمد حسن کان پوری کے رسالہ تنزیہ الرحمٰن عن تقدیس الرحمٰن کے جواب وردمیں لکھا تھا، اسی مبحث پر ۱۹؍رمضان المبارک ۱۳۰۶ھ میں آپ نےمولوی محمود حسن دیوبندی سےلاہور میں مناظرہ کیا، اس مناظرہ میں مولوی محمود حسن کو سخت ذہت آمیر شکست ہوئی، آپ کے قاہر دلائل و سوالات سے وہ اتنےمرعوب ہوئے کہ ادھر اُدھر کی کہنےلگے (۲)تعلیقات المفتی ‘‘شرح مسلم المولوی حمداللہ کا حاشیہ شرح مسلم کے ساتھ مطبع اسلامیہ لاہور میں طبع ہوا، (۳)عقد الدر فی جید نزھۃ النظر’’ نزہۃ النظر کاحاشیہ ہے، جو ۱۳۲۰ھ میں مطبع بھتبائی دہلی میں ۱۲۲صفحات میں طبع ہوا، (۴)الکلام الرشیق،
کلکتہ میں آپ پر فالج کا حملہ ہوا، وہاں سےبھوپال اپنے بیٹے مولوی انوار الحق ایم۔ اےناظم تعلیمات بھوپال و مرتب دیوان غالب نسخۂ حمیدیہ کےپاس چلےآئے اور کچھ مدت صاحب فراش رہ کر رجب میں ۷؍نومبر۱۹۳۰ھ میں انتقال کیا، مولوی عبد الحئی صاحب نزہۃ الخواطر نےسال وفات ۱۳۳۹ھ لکھا ہے، جو ۱۵؍ستمبر ۱۹۲۰ء سےشروع ہوکر ۳؍ستمبر ۱۹۲۱ء پر ختم ہوتا ہے، اس طرح انہوں نے پورےدس برس کا فق کردیا۔