حضرت مولانا ابو یزید جلال الدین پورانی علیہ الرحمۃ
آپ نے علوم شرعیہ حاصل کیے تھے اور شریعت کی رعایت اور سنت کی متابعت سے مقابلہ عالیہ تک پہنچے تھے۔آپ اکثر اوقات وظائف شرعی کو ادا کر کے مسلمانوں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔جو شخص کسی مطلب میں آپ کی طرف رجوع کرتا ،حتی الامکان اس میں سعی فرماتے اور اس کو پورا کرنے کے لیے جس دنیادار کی طرف جاان مناسب ہوتا،آپ خود جاتے۔جو وعظ و نصیحت آپ کی زبان پر گزرتی۔سامعین کے دلوں میں اس کا خاص بڑااثر ہوتا تھا۔اگرچہ ان کو بارہا سنا ہوتا۔اس کو دل پر رکھتے اور ان کا بظاہر طریقت میں کوئی پیر نہ تھا۔وہ ضرور اویسی تھے۔آپ فرماتے ہیں کہ جب مجھے کوئی اشکال پیدا ہوتا ہے تو آنحضرت ﷺ کی وحانیت بے واسطہ اس کو دور کر دیتی ہے۔کہتے ہیں کہ ایک دن اپنے دوستوں سے شاز طلب کیااور کہا کہ حضرت رسالت پناہ ﷺ نے فرمایا کہ بایزید کبھی اپنی داڑھی میں کنگھا تو کیا کرو۔آپ مولانا ظہیر الدین خلوتی میں جایا کرتے تھے۔ان کے طریقہ کے بہت معتقد تھے۔اگرچہ اس کی مریدی کے لحاط سے نہ آتے تھے۔ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ آپ کا گھر مہمانوں سے خالی ہوتا۔ان کے لیے عمدہ کھانے تیار کرتے ،باوجود یکہ ان کی آمدن باغ اور کھیت کی تھوڑی تھی۔ایک دن کہتےکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی دوستوں کی جماعت شہر سے پوران کی طرف جاتی تو مجھ کو معلوم ہوجاتا۔میں جان لیتا تھا کہ قدس آدمی ہیںاور کب پہنچیں گے۔یں ان کے لیے مناسب کھانا تیار کرتا تھاجب آجائیں بے انتظار کھالیں ۔ایک رات مسجد میں ختم قرآن ہوتا تھا ۔ایک ترک نہر کے کنارے سے چند روغن جوش مسجد میں لایا اور مجھے قسم دی کہ اس میں سے کھاؤ کیونکہ یہ بوجہ حلال ہے۔ایک روغن جوش اٹھایا اور اس کے دو ٹکڑے کیے پھر ایک کے دو کیے اور اس میں سے ایک کھایا تو وہ مطلب مجھ پر چھپ گیا۔ اس وقت سے پیچھے اب مہمانوں کی توجہ کی اس طرف کا مجھے علم نہیں ہوتا۔ان کے پہنچنے کے وقت کو نہیں جانتا ۔میں تشویش میں رہتا ہوں۔
ایک دن جماعت کے ساتھ زیارت کوان کی خدمت میں ہم گئے۔وہ موسم انگور کا تھا۔ہم کو انگور کے باغ میں لائے اورآپ چل دئے۔ہم نے باغ کا چکرلگایا۔جس قدر انگور چاہیئےتھے"ہم نے کھائے۔جماعت میں سےایک شخص نےچند خوشہ انگور کے اٹھا لیے۔دوسرےنے اس سے کہا کہ مولانا نے اٹھانے کی اجازت نہیں دی اور وہ قصہ بیان کیا کہ ایک عالم وقت سے واق ہواتھا۔یعنی اس کے چندلوگ مہمان ہوئے تھے۔جماعت میں سے ایک شخص نے ان کے دسترخوان سے تبرک اٹھایا تھا۔جب خادم نے دسترخان اٹھایا تو خادم سے کہا کہ تم نے کیوں برے کام سے نہ روکا۔خادم نے کہا کہ میں نےتو کوئی برا کام نہیں دیکھا۔کہا کہ فلاں شخص نے بے اجازت ٹکڑا اٹھالیا ہے۔دسترخوان اس کے پاس لے جا کہ اس کو اس میں ڈال دے۔خادم دسترخوان اس کے پاس لے گیا۔اس نے وہ ٹکڑا اس میں ڈال دیا۔اس کے بعد مولانا آئے اور ہمارے لیے کھانا لائے۔جب کھانا کھا چکے تو ہم نےلوٹنے کی اجازت مانگی۔ہمارےآنے کے وقت دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور کہا"جن کو میں نے باغ میں آنے کی زجازت دے دی تھی۔ان کو کھانے اور لےجانے کی بھی اجازت تھی"لیکن جو کچھ عالم نے کیا"اچھا نہیں کیا۔اگرچہ اول اجازت نہ دی تھی "مگر مناسب تھاکہ آخر معاف کر دیتا۔اس ٹکڑہ کو واپس نہ کرتا۔ایک اور مرتبہ ان کی زیارت کا اتفاق ہوا۔واپسی کے وقت ان میں سے ایک کے دل میں یہ گذرا تھا کہ اگر مولانا میں کرامت ہے تو چاہیئے کہ مجھےکشمکش تبرک کے طور پر دیں۔جب آپ کو ہم نے رخصت کیا تو آپنےاس شخص کو آواز دی کہ تھوڑی دیر ٹھہرو۔گھر میں گئے اور ایک طباق کشمکش کالائے۔اس کو دے کر کہا"معاف رکھنا کہ ہمارے باغوں میں کشمکش نہیں ہوتا میں ایک دفعہ ان کے پاس نماز مغرب پڑھتا تھا۔ان کو ایسا مغلوب و مستغرق پایا کہ ان کو کوئی شعور نہ تھا۔قیام میں کھڑے ہوتے تھے۔کبھی دایاں ہاتھ بائیں پر اور کبھی بایاں دائیں پر رکھتے تھے۔آپ پیر کی رات ۱۰ذی القعدہ ۸۶۲ھ میں فوت ہوئے۔آپ کی قبر بوارن میں ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)