حضرت مولانا ابو النور محمد صدیق چشتی بصیر پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا ابو النور محد صدیق چشتی ابن مولانا ابو الصدیق احمد دین (قدس سرہما) پاک سیرت اور صوفی مشرب عالم تے۔آپ کے آباء واجداد ضلع فیروز پور (بھارت) کے رہنے والے تھے سکول کے عہد میں منتقل ہو کر یہ بزرگ ضلع ساہیوال میں آباد ہو گئے۔ اس خاندان نے علوم دینیہ کی اشاعت میں اہم خدمات انجام دی ہیں۔آپ کے جد اعلیٰ حضرت مولانا ابو الجمال حافظ محمد حبیب اللہ المعروف بر قع پوش قدس سرہ بلند پایہ عالم اور ولی کامل تھے، چہرئہ انور پر حجاب ڈالے رہتے اور حسن اتفاق سے تدفین کے دوسرے روز آپ کے مرقد پاک کو بھی سبزہ زار نے ڈھانپ کر آپ کی عادت کریمہ کی اتباع کا حق ادا کردیا۔
آپ کے والد ماجد اپنے دور کے ممتاز عالم تھے،فارسی زبان میں مہارت تامہ رکھتے تھے چنانچہ آپ نے علوم عربیہ اور فارسی کی تعلیم انہی سے حاصل کی اور دورئہ حدیث پاک کی تحصیل کے لئے اپنے فرزند ارجمند فقیہ عصر مولانا ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی مدطلہ العالی کی حوصلہ افزائی فرمائی۔آپ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے عاشق تھے،ذکر مصطفی سنکر آپ کا جسم لرز جاتا تھا۔ایک مرتبہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور کے سالانہ جلسہ پر شیخ القرآن علامہ ابو الحقائق محمد عبد الغفور ہزاروی قدس سرہ اپنے خاص انداز میں تقریری شروع کی،آپ بہت علیل تھے،علامہ ہزاروی کی آواز سنکر مجھے جلسہ گاہ میں لے چلو چنانچہ دو آدمی کندھوں پر آپ کو جلسہ گاہ میں لائے اور تین فٹ اونچے اسٹیچ پر بٹھادیا۔علامہ ہزاروی نے امام اہل سنت امام احمد رضا بریلوی قدس کا یہ شعر پڑھا۔ ؎
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلادئے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسادئے ہیں
تو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ی اس مخصوس مہک سے محفوظ ہوکر آپ پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی چنانچہ آپ بری روانی سے ذکر کرتے ہوئے اسٹیچ سے نیچے اتر آئے آپ نے ۱۹۴۸ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔
مولانا ابو النور سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے مشہور بزرگ قدوۃ السالکین حضرت خواجہ حافظ جان محمدقدس سرہ (چک ۳۹ ساہیوال) سے بیعت اور مجاز تھے نیز دوسرے سلسلہ ہائے طریقت کے بزرگوں سے بھی مستفید تھے۔آپ کے مریدین کا حلقہ وسیع تھا۔
آپ کے فرزند اجمند حضرت فقیہ اعظم جب محقق دوراں علامہ سید دیدار علی شاہ قدس سرہ سے سند درس حدیث لیکر آئے تو آپ نے فرید پور جاگیر(ساہیوال) میں دار العلوم کے قیام کا مشورہ دیا چنانچہ ۱۳۴۲ھ میں یہان دار العلوم قائم کردیا گیا اور پھر ۱۳۶۵ھ میں اسے بصیر پور منتقل کردیا گیا۔مولانا ابو النور نے اس دار العلوم کے ذریعہ دینی خدمات کا تمام تراجر خاتم الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نذر کردیا تھا او ر فرمایا کرتے تھے کہ روز محشر ہم خالی ہاتھ جاکر اپنا دامن حضور ہی کی عنایات سے بھریں گے۔دارالعلوم کی ترقی میں آپ کی مساعی نا قابل فراموش ہیں۔
آخر عمر میں مثانہ کے موذی مرض میں مبتلا ہوئے،شدید ترین تکلیف کے با وجود آپ احکام شرعیہ پر سختی سے عمل پیرار ہے۔آپ کو سول ہسپتال(منٹگمری) میں داخل کیا گیامگر اپریشن کے باوجود بھی مرض میں کمی واقع نہ ہوئی۔آخری لمحات میں آپ نے اپنے فرزند رشید فقیہ عصر مدظلہ العالی سے رازدار نہ باتیں کیں،اس دوران کمر تک رشتۂ زیست ٹوٹ چکا تھا لیکن آپ برق رفتاری سے کلمۂ طیبہ کا ذکر کر رہے تھے چنانچہ اسی کیفیت میں ۱۷رمضان المبارک،۱۵ مارچ(۱۳۸۰ھ؍۱۹۲۱ئ) بروز اتوار آپ نے سفر آخرت فرمایا اور دارالعلوم کے وسیع احاطہ میں آپ کا مرقد انور مأمن مریدین و معتقدین ہے۔
آپ نے دو شادیاں کیں جن سے متعدد صاحبزادیوں کے علاوہ(۱)ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی مدظہ،شیخ الحدیث وبانی دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصر پور،مولانا ۲ابو البقاء محمد حبیب اللہ نور،مولانا ابو الحامد۳ محمد احمد چشتی،مولوی۴ محمود احمد اور حافظ۵ مقصود احمد صاحبزادگان آپ کے خلف ہیں[1]
بصد حسرت بگویم دو ستاں را
کہ رحلت مولانا صدیق فرمود
مجاہد عابد و عاشق رسولے
فقیہ وہم تقی وہم صفی بود
گذشتہ عمر اودرخدمت خلق
برفت از مابحق خر سندہ خوشنود
زدل تاریخ پر سیدیم و گفتہ
فگندہ شش جہت ’’مغفور و مودود‘‘
[1] یہ حالات مولانا شاہ محمد چشتی قصوری حاصل ہوئے
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)