حضرت علامہ مولانا اول خاں رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی:حضرت علامہ مولانا اول خان ۔لقب:اصولی بابا۔سلسلہ ٔ نسب:خاندانی تعلق مسلمانوں کےغیورقبیلے’’پٹھان‘‘سےہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1287ھ مطابق1870ء کو’’دھوبیاں‘‘مردان صوبہ سرحدپاکستان میں ہوئی[1]۔
تحصیلِ علم: آپ نےمقامی علماءکرام سےعلوم متداولہ کی تکمیل کی تھی۔موضع لنڈی،کالو خان،موضع شیوہ تحصیل صوابی،گھڑی کپورہ کےعلماء کرام کی خدمت میں رہ کرعلوم وفنون میں مہارت تامہ حاصل کرکے’’موضع شہباز گڑھ،مردان‘‘تشریف لائےاورپھریہیں مقیم ہوگئے[2]۔
بیعت وخلافت: آپ آزاد قبائل کےمعروف ولی اللہ حضرت اسوٹا باباجیکےمعتقدین میں سےتھے[3]۔
سیرت وخصائص: ماہرعلوم عقلیہ ونقلیہ،استاذالعلماء،مرجع الفضلاء،عالم اکمل،فاضلِ متبحر،حضرت علامہ مولانا اول خان،آپاپنےوقت میں تمام علوم وفنون کےیکتائےروزگار،نحو اور فقہ کےامام تھے۔آپ نےشرح ملاجامی،اور کافیہ اپنےقلم سےتحریر فرمائیں،اور ان پرمختلف کتب مختلفہ سےحواشی ِ مفیدہ،سوال وجواب،اور نکاتِ غریبہ وعجیبہ لکھے۔یہ قلمی نسخہ آپ کےفرزندکےپاس موجود تھا۔’’شرح حسامی‘‘ بھی اپنےقلم سےلکھی اور اسی طرح مختلف اصول وفقہ کےکتب معتبرہ سےحواشی نقل کرکےکتاب مذکورہ کوبہت ہی وقیع بنادیاہے۔آپ فقہ،اصول،اور صرف ونحو میں کمال علم کےمالک تھے۔آپ کی علمی شہرت کی بدولت کوہستان،ننگرہار،ملیزے،دیر،سوات،بنیر،قندھار،کابل،غرض دور دراز ممالک سےطلباء آپ کےپاس آتے اور فیض ہاب ہوکر جاتے۔’’نورالانوار شرح منار‘‘پرسوال وجواب کی صورت میں شرح لکھی۔یہ ضخیم کتاب ہے۔آپ نصف رات سےتدریس شروع کرتےاور اشراق کی نماز تک اسباق پڑھانے سےفارغ ہوجاتے،اور دن میں اپنی زمین پر کھیتی باڑی میں مصروف رہتے۔تیس سال کی عمر سےباقاعدہ تدریس شروع کی اور چالیس سال تک پڑھاتےرہے۔یعنی ستر برس کی عمر تک تدریس میں مصروف رہے۔
آپبڑےسخی،جواں ہمت،متواضع،انتہائی مہمان نوازاور اخلاقِ حسنہ کےمالک تھے۔آپ کےشاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ان میں اکثر صاحبانِ درس اور صاحبان ِ افتاء ہیں۔اس علاقے میں آپ کی ذات ستودہ صفات اہل سنت وجماعت کےعقائد حقہ کی اشاعت وترویج کی عظیم شخصیت تھی۔اس خطے میں آپ کےہزاروں شاگرد آپ کےلئےصدقہ جاریہ ہیں۔
اِس وقت یہ صوبہ جوماضی قریب میں اہل سنت وجماعت کامرکز تھا،اوربڑےعلماء ودینی مراکزتھے۔آج یہ بدمذہبوں کی آماج گاہ ومحفوظ پناہ گاہ بن چکاہے۔غیر ملکی، منشیات، سمگلراور بھتےکےپیسوں سےبدمذہبوں نےاپنےبڑےبڑےادارےاور مساجد قائم کیں۔علماء ومشائخ اہل سنت کوپلاننگ کےساتھ شہید کیاگیا۔سادہ لوح عوام کونماز،روزہ کےنام پر گمراہ کررہےہیں۔اہل سنت کےاربابِ اختیارکواس حساس مسئلےکی طرف ضرور توجہ دینی چاہئے،اور بچےکھچےاہل سنت اور ان کی نسلوں کےعقائد کےتحفظ کےلئےدینی مدارس اور عالی شان جدید طرز پردینی ادارے ومساجدکاقیام ناگزیر اور وقت کی ضرورت ہے۔اور یہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت کا عظیم منشوربھی ہے۔اسی طرح اپنےعلماءو مشائخ کی کتبِ مفیدہ کوطبع کراکرمفیدعام بنائیں۔مولانا اول خانکےمعتقدین اورتلامذہ اوراولاداس بات کےزیادہ ذمہ دار ہیں کہ وہ آپ کی کتب کی طباعت واشاعت عام ِ زمانہ کریں۔
مولانااولکےچارصاحبزادےہوئے۔عبدالغفران،عبدالمنان،عبدالبرہان،اورعبدالسبحان۔مولاناعبدالمنان کےعلاوہ باقی تمام فرزند آپ کی زندگی میں فوت ہوگئے۔مولانا عبدالمناناپنے وقت کے فاضل اجل اور عالم متبحرتھے۔دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں تدریس کاشرف حاصل رہا۔مفسر اعظم مولانا ابراہیم رضا خان جیلانی میاںاور مولانا مفتی تقدس علی خانآپ کےنامور تلامذہ میں سےتھے[4]۔
تاریخِ وصال: یہ آفتاب اہل سنت 70برس کی عمر میں 3/ذیقعدہ 1357ھ، مطابق 25/دسمبر1938ء ،پیر کی رات میں سینکڑوں سینوں کومنور کرکےغروب ہوگیا۔آخری آرم گاہ مقامی گاؤں ’’شہباز گڑھ‘‘ضلع مردان ’’جامع مسجد بہرام خیل‘‘کےشمالی کونےمیں ہے[5]۔
[1]تذکرہ اکابراہل سنت:107
[2] تذکرہ علماء ومشائخ سرحد جلد دوم:240
[3] تذکرہ علماء ومشائخ سرحد جلد دوم:241
[4] تعارف علمائے اہل سنت:212
[5] تذکرہ علماء ومشائخِ سرحد:241